وزیر اعظم اور جہانگیر ترین میں خلیج پیدا ہو گئی، پارٹی بھی لاتعلق

0
413

لاہور:

وزیر اعظم عمران خان اور ان کے قریبی ساتھی جہانگیر ترین کے درمیان گہری خلیج پیدا ہو گئی جب کہ پاکستان تحریک انصاف نے بھی غیر اعلانیہ طور پر لاتعلقی اختیار کر لی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ بعض مقتدر حلقے اور اہم شخصیات پس پردہ مفاہمت کروانے کیلیے متحرک ہیں لیکن فی الوقت جہانگیر ترین کاکم بیک ناممکن نہیں تو نہایت مشکل ضرور ہے۔ اختلافات کے بڑھنے میں پرنسپل سیکریٹری اعظم خان اور وفاقی وزیر اسد عمرکا نمایاںکردار بھی سامنے آیا ہے۔اب تنظیمی و حکومتی امور میں اسد عمر گروپ نے واضح برتری حاصل کر لی ہے۔

پارٹی میں جہانگیر ترین گروپ کا تنظیمی دھڑا ایک برس قبل ہی اس وقت منتشر ہو چکا تھا جب عبدالعلیم خان، چوہدری محمد سرور، غلام سرور خان ،پرویز خٹک اور بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ ناراض ہو کر جہانگیر ترین سے الگ ہو گئے تھے۔نومبر2011ء میں تحریک انصاف میں شمولیت کے بعد سے چند ہفتے قبل تک جہانگیر ترین تحریک انصاف اور اس کی حکومت میں عمران خان کے بعد دوسری طاقتور ترین شخصیت تھے تاہم اس وقت بھی اپوزیشن کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف کے اندر بعض مرکزی رہنماؤں کی جانب سے ان کی شدید مخالفت کی جا رہی تھی۔

 

10برس تک تحریک انصاف میں ڈی فیکٹوعمران خان قرار دیئے جانے والے جہانگیر ترین گزشتہ تین روز سے اپنوں اور غیروں دونوں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔تحریک انصاف میں دو مضبوط دھڑے ہمیشہ قائم رہے جن میں سے ایک کی کمانڈ ہمیشہ جہانگیر ترین کے پاس رہی جبکہ دوسرے دھڑے کی کمان پہلے جاوید ہاشمی،پھر شاہ محمود قریشی اور اب اسدعمر کے پاس ہے۔

پارٹی کی تنظیمی طاقت میں عبدالعلیم خان اور پرویز خٹک کو جہانگیر ترین کا سب سے بڑا پاور سورس کہا جاتا تھا لیکن اس وقت یہ دونوں گزشتہ کئی ماہ سے جہانگیر ترین سے ناراض ہیں۔

جولائی2018ء میں الیکشن جیتنے کے بعد عمران خان علیم خان کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنانا چاہتے تھے۔ اسی لیے انہوں نے جہانگیر ترین اور علیم خان کومل کر پنجاب اسمبلی میں عددی اکثریت پوری کرنے کا ٹاسک دیا تھا لیکن چند روز بعد ہی اچانک علیم خان کے خلاف نیب متحرک ہو گیا اور یہ باتیں سنائی دینے لگیں کہ جہانگیر ترین علیم خان کو وزیر اعلیٰ بنانے کے حق میں نہیں کیونکہ ان کا خیال تھاکہ اگر سپریم کورٹ نے نااہلی ختم کردی تو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بننا ان کے لئے مشکل ہوجائے گا کیونکہ علیم خان جیسے مضبوط پارٹی لیڈر اور متحرک وزیر اعلی سے استعفیٰ لینا مشکل ہو گا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here