پاکستان بائیو سیکیور کرکٹ کے منفرد تجربہ کا حصہ دار بننے کو تیار

0
119

کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا بھر میں کاروباری زندگی شدید متاثر ہوا ہے،کھیلوں کی سرگرمیاں بھی نہ ہونے کے برابر رہ گئیں، چند ملکوں میں فٹبال، بیس بال اور رگبی کے مقابلوں کا آغاز ہوا ہے، نیوزی لینڈ کے سوا دیگر ملکوں میں کھیلوں کا انعقاد بند دروازوں کے پیچھے بغیر تماشائیوں کے سٹیڈیمز میں کیا جا رہا ہے،کرکٹ کی دنیا پر زیادہ ہی خاموشی طاری رہی، ویسٹ انڈیز میں ڈومیسٹک ٹورنامنٹ کے سوا کہیں کوئی سرگرمی نظر نہیں آئی، چند ملکوں میں کھلاڑیوں کی ٹریننگ کا سلسلہ شروع ہوا ہے۔

میدان ویران ہونے کی وجہ سے کرکٹ بورڈ بھی مالی بحران کا شکار ہیں، اخراجات میں کمی کے لیے مختلف ترقیاتی کاموں کو روکنے کے ساتھ ملازمین کی چھانٹی  یا ان کی تنخواہوں میں کٹوتی سے بھی گریز نہیں کیا جا رہا، اس مشکل صورتحال میں انگلش کرکٹ بورڈ نے جرات مندانہ قدم اٹھاتے ہوئے بائیو سیکور ماحول میں میچز کروانے کے منصوبے پر کام کئی ہفتے قبل شروع کر دیا تھا،ٹیموں کو چارٹر طیاروں کے ذریعے انگلینڈ لانے کے بعد حکومت کی طرف سے 14 روزہ قرنطینہ اور پھر بند دروازوں کے پیچھے مقابلے کروانے کا پلان کوئی آسان کام نہیں، کھلاڑیوں اور آفیشلز کی حفاظتی تدابیر کے ساتھ نقل و حمل کے لیے منصوبہ سازی کی گئی، قیام و طعام کا بندوبست بھی سٹیڈیمز سے ملحقہ وینیوز میں کرنے کا انتظام کیا گیا، ویسٹ انڈیز کا سکواڈ اس وقت انگلینڈ میں موجود ہے۔

8 جولائی کو پہلے ٹیسٹ میچ کے ساتھ سیریز کا آغاز بھی ہو جائے گا،دوسری طرف پاکستان نے بھی دورہ انگلینڈ کے لیے حامی بھرنے کے بعد ممکنہ کھلاڑیوں کی فہرست بھی تیار کرلی، بائیو سیکیور ماحول میں ٹریننگ کیلیے بھی پلاننگ کی جا رہی تھی لیکن پاکستان میں کورونا کیسز کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہونے کے بعد تربیتی کیمپ لگانے کا درست فیصلہ کیا گیا، 3 ٹیسٹ اور اتنے ہی ٹی ٹوئنٹی میچز کی سیریز کے لیے اب تمام تر تیاری انگلینڈ میں ہی کی جائے گی، پی سی بی کی درخواست پر پاکستانی سکواڈ اب پہلے دیئے گئے شیڈول  سے ایک ہفتہ قبل ہی پہنچ جائے گا۔

 

دونوں فارمیٹ کے لیے مجموعی طور پر 29 کرکٹرز کا انتخاب کیا گیا ہے، کھلاڑی پیر کو اپنے اپنے شہروں میں کورونا ٹیسٹ کلیئر کروانے کے بعد 24 جون کو لاہور کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں یکجا ہوں گے جہاں اگلے روز ہی ایک بار پھر ٹیسٹنگ کے مرحلے سے گزرنا ہوگا،اگر اس دوران کسی کھلاڑی کا ٹیسٹ مثبت آتا ہے تو ریزورز میں سے کسی متبادل کا انتخاب کیا جائے گا۔

انگلش کرکٹ بورڈ پاکستانی دستے کو لاہور سے اڑان بھرنے کے لیے جو چارٹر طیارہ بھیج رہا ہے اس پر 10 کروڑ 35 لاکھ روپے خرچہ آئے گا، ویسٹ انڈین ٹیم کو بھی اسی طرح کی سہولت فراہم کی گئی تھی لیکن یہ سودا مہنگا نہیں ہے کیونکہ ای سی بی کا کروڑوں پاؤنڈز کا نشریاتی حقوق کا معاہدہ بچ جائے گا۔

انگلینڈ کی ویسٹ انڈیز اور پاکستان کے خلاف سیریز صرف میزبان ملک کے لیے ہی نہیں بلکہ انٹرنیشنل کرکٹ کے لیے بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہے، کوئی ویکسین یا باقاعدہ علاج دریافت نہ ہونے کی وجہ سے کورونا کا بحران کب تک رہے گا، فی الحال اس کے بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کی جاسکتی،ان حالات  میں ادارے بقا کی جنگ جیتنے کے لیے مختلف تدابیر پر غور کر رہے ہیں، کرکٹ کی دنیا کو بھی یہی چیلنج درپیش ہے، انگلینڈ میں ہونے والے انٹرنیشنل مقابلے دیگر ملکوں کو بھی راستہ دکھائیں گے۔

آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا رواں سال اکتوبر، نومبر میں آسٹریلیا میں انعقاد ہونا ہے، آسٹریلوی حکومت نے ستمبر کے وسط تک سرحدیں بند رکھنے کا اعلان کر رکھا ہے، ایک ماہ کے دوران 16ٹیموں  کے لیے لاجسٹک انتظامات کرنا قطعی طور پر آسان کام نہیں ہوگا، باہمی سیریز کی بات الگ ہے،مختلف ملکوں سے آنے والے سکواڈز کو اس وقت اپنے حالات بھی دیکھنے ہوں گے۔

امکان یہی ہے کہ میگا ایونٹ کو کم ازکم آئندہ سال فروری، مارچ تک ملتوی کر دیا جائے گا، کورونا سے مکمل نجات پانے والا نیوزی لینڈ بھی میزبانی کے امیدواروں میں شامل ہو چکا ہے،بہرحال موجودہ صورتحال میں انگلینڈ میں ہونے والی انٹرنیشنل کرکٹ مستقبل  کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے، اس دوران کیے گئے انتظامات میں ذرا سی جھول بھی بائیوسیکیور کرکٹ کے اولین تجربے پر اعتماد ختم کر سکتی ہے، یہ میچز میزبان بورڈ، حکومت اور متعلقہ آفیشلز کے ساتھ مہمان سکواڈز کا بھی امتحان ہیں،کسی نے بھی احتیاط کا دامن ہاتھ سے چھوڑا تو کسی ناخوشگوار واقعے کی صورت میں عالمی کرکٹ پر بھی کاری ضرب لگے گی۔

عید الفطر کے بعد پاکستان میں کھیلوں کی سرگرمیوں پر مکمل طور پر پابندی عائد کے باوجود شاہد آفریدی اور فخر زمان سمیت 4 کرکٹرز نے پشاور میں میدان کا رخ کیا، لاہور میں قومی ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی ٹیم کے کپتان بابر اعظم اور امام الحق دیگر مقامی کھلاڑیوں کیساتھ عبدالقادر اکیڈمی میں ٹریننگ کرتے نظر آئے، ان کی پی سی بی کی جانب سے سرزنش بھی کی گئی، انہوں نے بعد ازاں شکایت کا موقع بھی نہیں دیا، انگلینڈ میں کرکٹرز، آفیشلز، براڈکاسٹرز سب کو ایک بائیو سیکیور ببل میں رہنا ہے۔

سیریز ختم ہونے تک کھلاڑیوں کو عام لوگوں سے میل جول کی اجازت نہیں ہوگی، کوئی غیر متعلقہ شخص ان کے پاس آئے گا نہ یہ باہر جا سکیں گے،ہوٹل ٹریننگ اور میچز یہی ان کی زندگی کا معمول ہوگا،نیشنل کرکٹ اکیڈمی لاہور میں ناکافی رہائشی سہولیات ہونے کی وجہ سے خطرہ تھا کہ اگر کچھ کھلاڑیوں کو کسی ہوٹل میں کرایا گیا تو سیکورٹی ببل برقرار نہیں رہ پائے گا، گھروں کو جانے کی اجازت دی تو بھی یہ ایس او پیز کی خلاف ورزی ہوگی، دوسری جانب پی سی بی نے ایک حیران کن فیصلہ کرتے ہوئے گزشتہ روز ایک پریس ریلیز جاری کی ہے جس میں بتایا گیا کہ شعیب ملک ٹیم کے ہمراہ سفر نہیں کر رہے اور براہ راست انگلینڈ میں دیگر کھلاڑیوں کو جوائن کریں گے، ان کو یہ خصوصی رعایت اس لیے دی گئی ہے کہ اپنی بھارتی ٹینس سٹار اہلیہ ثانیہ مرزا اور بیٹے اذہان کے ساتھ کچھ وقت گزار سکیں۔

یوں جہاں پورا سکواڈ لاہور سے روانہ ہونے کے بعد انگلینڈ میں قرنطینہ کرے گا، بولنگ کوچ وقار یونس آسٹریلیا اور فزیو کلف ڈیکن جنوبی افریقہ سے براہ راست پہنچ کر جوائن کریں گے،وہاں شعیب ملک کسی ایسے ماحول میں چھٹیاں گزارنے کے بعد سکواڈ میں شامل ہوں گے جس کے بارے میں یقینی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا، اس وقت ان کا کورونا ٹیسٹ اور قرنطینہ دیگر کھلاڑیوں کی صحت کے لیے بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہوگا، کوئی بھی غلط فیصلہ یا بد احتیاطی بائیو سیکیور ماحول کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔

میڈیا میں یہ اطلاعات گردش میں رہی ہیں کہ انگلش کرکٹ بورڈ نے مالی بحران سے نکلنے کے لیے کوشاں ویسٹ انڈیز کو  قرض دیا ہے، اس کے جواب میں کیریبئنز دورے پر راضی ہوئے ہیں، گرچہ دونوں بورڈ کی جانب سے کسی ڈیل کا تاثر مسترد کیا جاتا رہا ہے لیکن یہ بات تو طے ہے ویسٹ انڈیز بورڈ نے قرض وصول کیا جو اب ای سی بی کو آئی سی سی سے واپس ملے گا، دوسری جانب  یہ رپورٹس بھی سامنے آئیں کہ مشکل وقت میں کام آنے پر پی سی بی کا ممنون احسان انگلش کرکٹ بورڈ بھی 2022میں دورہ پاکستان سے انکار نہیں کر سکے گا۔

پی سی بی کے چیئرمین احسان مانی اور چیف ایگزیکٹو وسیم خان کے ساتھ ہیڈکوچ وچیف سلیکٹر مصباح الحق نے بھی کہا کہ دورہ انگلینڈ عالمی کرکٹ کے مفاد میں ہے، ہمارے کھلاڑیوں کو انٹرنیشنل سرگرمیاں اور ای سی بی کو بحرانی صورتحال سے نکلنے میں مدد ملے گی، میدانوں کی رونقیں بحال ہونے کا راستہ بھی بنے گا لیکن کوئی ڈیل نہیں ہوئی کہ انگلینڈ کی ٹیم جوابی دورہ کرے گی، بورڈ کے بڑوں کا یہ کہنا ہے کہ 2022 میں ٹور کی بات تو گزشتہ سال سے چل رہی ہے، سری لنکا، بنگلہ دیش کی میزبانی اور پی ایس ایل کے پاکستان میں انعقاد کے بعد مزید انٹرنیشنل میچز کے لئے ہمارا کیس پہلے ہی مضبوط ہو چکا ہے، کوئی دباؤ نہیں ڈالیں گے لیکن امید ہے کہ انگلینڈ کی ٹیم پاکستان کا دورہ کرے گی۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here