نیا قانون!!!

0
292
عامر بیگ

عامر بیگ

ایوینل نیو جرسی میں سٹیٹ کوریکشن فیسیلیٹی ہے جہاں پر خطرناک سیکس اوفینڈر رکھے جاتے ہیں میں وہاں نماز جمعہ پڑھانے اور کونسلنگ کرنے تقریباً ڈھائی سال تک جاتا رہا ہوں ۔ایسی ایسی ہوشربا وارداتیں سننے کو ملیں کہ اللہ توبہ تمام ان میٹ کانوں کو ہاتھ لگاتے تھے کہ اگر کوئی سونے کی بھی بن کر آجائے چھونا تو درکنار اس کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھیں گے لیکن سزا پوری ہو جانے اور ری ہیب میں رہنے کے بعد جب ان کو ریلیز کیا جاتا ہے تو باوجود اسکے کہ ان پر نظر بھی رکھی جاتی تھی۔ رجسٹرڈ سیکس اوفینڈر کا لوگو بھی ٹیگ ہوتا تھا جس جگہ پر وہ رہتے تھے اس جگہ کو مارک کر کے پبلک کے علم میں بھی لایا جاتا کہ لوگ ہوشیار رہیں لیکن پھر بھی اکثر باز نہیں آتے تھے کوئی نہ کوئی واردات ڈال ہی دیتے تھے اور پھر سے دوبارہ اسی جیل کا رخ کرتے تھے۔ ڈاکٹر معید پیرزادہ کے ساتھ انٹرویو میں پرائم منسٹر عمران خان نے جب یہ تجویز پیش کی کہ اگر ان کا بس چلے تو وہ زیادتی کرنے والے لوگوں کو چوک میں پھانسی دے دیں لیکن یورپی یونین کے ساتھ ہماری تجارتی ٹائیز رکاوٹ ہیں۔ ممکن ہے انکی حکومت قانون لے آئے کہ زیادتی کرنے والوں کو کھسی کر دیا جائے، بات میں وزن ہے یہ ایک نیا قانون ہو گا ۔نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری ۔خان کا یہ کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر لوگ اس کی حمایت اورمخالفت میں دلائل دینے میں لگ گئے ۔اینکرز حضرات کو تو جیسے کوئی اچھوتا ٹاپک مل گیا ہر کوئی اس پر اپنے طریقے سے نئی نئی اور بھانت بھانت کی بولیاں بولنے لگا۔ میں کہتا ہوں کہ اچھا ہے یہ پاکستان میں ایک ایسے دور کی ابتدا ہے کہ عام عوام بھی قانون سازی میں شامل ہو رہی ہے۔ پہلے اشرافیہ کے چند لوگ مل کر قانون بناتے اور اسمبلی میں بیٹھی ربڑ سٹیمپیں اس پر مہر تصدیق ثبت کر دیتیں اور کسی کو خبر ہوئے بغیر قانون پاس ہو جایا کرتا تھا ۔یہ پہلی دفعہ ہے کہ عوام بھی اس پروسیس کا حصہ ہیں ایک بڑی وجہ جو اس قانون کے مخالفت میں جا رہی ہے وہ یہ کہ اس طرح کے لوگ ذہنی مریض ہوتے ہیں اور اکثر وکٹم کے عزیز ہی ہوتے ہیں ۔اس طرح سے مزید ذہنی مریض پیدا ہونے کا خدشہ ہے، ذہنی مریضوں کو جسمانی مریض بنا کر معاشرے میں مزید بگاڑ پیدا کیوں کیا جاتا ہے اور پھر فیملی میں اس قانون کی وجہ سے الگ نتائج ہوں گے اس پر بہت سوچ سمجھ کی ضرورت ہے کیا ہم اسلامک طریقے سے اس مسئلے کا حل سوچ سکتے ہیں ۔اٹھارہ سال کے بعد کوئی بھی غیر شادی شدہ نہ رہے، تعلیمی اور کاروباری سرگرمیاں بھی جاری رہیں ہو سکے تو حکومت وظیفہ مقرر کر دے جب تک کہ جوڑا کمانے کے قابل نہیں ہو جاتا چھوٹی عمر میں بننے والے بانڈ زیادہ مضبوط ہوتے ہیں جس کی مثال ہمارے والدین ہیں۔لہٰذا چھوٹی عمر میں شادی کا قانون پاس کیا جائے تاکہ بانس بھی رہے اور حلال طریقے سے بانسری بھی بجتی رہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here