شمیم سیّد،بیوروچیف ہیوسٹن
یہ میں آج کہہ رہا ہوں کہ جیسے ہی کرپٹ لوگوں پر ہاتھ ڈالوں گا یہ سب اکٹھے ہو جائیں گے اور آج عمران خان کی وہ بات سچ ثابت ہو گئی اور پورا ٹولہ اکٹھا ہو گیا کیونکہ آنے والا وقت ان کرپٹ لوگوں کےلئے خطرناک ثابت ہونے والا ہے۔ پے درپے اسمبلی میں شکست کھانے کے بعد اب ان کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا اس سے پہلے کہ شکنجہ تنگ ہو جائے ملک میں ہنگامے شروع کروا دیئے جائیں، اور پھر وہی گنے چُنے سیاسی لوگ روئی کا پہاڑ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اور حکومت کے جانے کے دن انگلیوں پر گن رہے ہیں کہ کس طرح اس حکومت سے چھٹکارا ملے اور ہم اس شکنجے سے آزاد ہوجائیں جو تلواریں ہمارے سروں پر لٹک رہی ہیں اس ملک میں اے پی سی بھی ہو ہو گئی، جلسے بھی ہونگے، دھرنے بھی ہونگے لیکن اس کے باوجود حکومت تبدیل ہوتی نظر نہیں آرہی ہے بلکہ احتساب کا عمل اور تیز ہوتا جائیگا جس طرح ہمارے اشتہاری ملزم محترم نوازشریف صاحب کے وارنٹ گرفتاری جاری ہو گئے ہیں اور جہاں وہ اپنا علاج کروا رہے ہیں اسی عدالت نے ان کو علاج کیلئے بھیجا تھا اور وہی عدالت ان کو واپس لانے کیلئے وارنٹ جاری کر رہی ہے اور اس وجہ سے ان کے پاس کوئی اور راستہ نہیں تھا ان کا جو بیان ٹی وی کے تمام چینلز پر نشر ہوا۔ جس میں انہوں نے براہ راست پھر فوج کو نشانہ بنایا ہے موصوف فرماتے ہیں کہ مجھے عمران خان سے کوئی مسئلہ نہیں ہے مسئلہ ان سے ہے جو اس کو لے کر آئے ہیں اس کے پیچھے کون سے عوامل ہیں جنہوں نے نوازشریف کو اجازت دیدی ہے کہ اشتہاری ملزم ٹی وی پر خطاب کر رہا ہے جس سے یہ بات تو ثابت ہو گئی کہ وہ بالکل تندرست ہیں اور ان کی تقریر نے ایک ہنگامہ برپا کر دیا ہے اور حکومتی ایوان لرز گیا ہے جیسا کہ ان کے لیڈران بیان دے رہے ہیں کہ اگر وہ واقعی عوامی لیڈر ہیں تو ان کو اپنی تقریر میں اعلان کر دینا چاہیے تھا کہ وہ پاکستان آرہے ہیں اپنے دونوں بیٹوں کےساتھ انہوں نے ایسی تو کوئی بات نہیں کی بلکہ اپنے لئے سیاسی پناہ کا راستہ ہموار کر لیا ہے اور وہ وہاں سے ہی اپنی سیاست کرینگے اور انہوں نے اپنا مقدمہ پکا کر لیا ہے کہ وہ اب پاکستان نہیں آئینگے اور وہ وہیں سے قیادت کرینگے۔ کیونکہ حکومت نے پہلے تو ان کی تقریر نشر کرنے پر پابندی لگا دی تھی لیکن اچانک ان کو اجازت دیدی گئی اگر صرف جیو ٹی وی تک محدود ہوتی تو ٹھیک تھا کیونکہ جیو تو ویسے ہی حکومت کیخلاف چل رہا ہے کیونکہ ان کے سرپرست اعلیٰ بھی قید میں ہیں لیکن اے آر وائی جو کہ حکومت کی طرفداری کرتا ہے اس پر بھی نشر ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ کوئی باہر سے پریشر ہے اور اس میں ہمارا کوئی اسلامی ملک شامل ہے جس طرح ہمارے اسلامی ملک اسرائیل کو تسلیم کر رہے ہیں اور عمران خان نے اسرائیل کو تسلیم کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے، یہ خطاب لگتا ہے اسی پریشر کا حصہ ہے۔ جس طرح اے پی سی کی میٹنگ میں مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ فوری عمل کا وقت ہے اور اسمبلیوں سے استعفے دے دو اس پر کوئی تیار نہیں ہے، پیپلزپارٹی سندھ میں حکومت کر رہی ہے سونے کی چڑیا کو کون چھوڑ سکتا ہے جو تنخواہیں اور مراعات حاصل ہیں اتنی قربانی کون دے گا، کیا عمران خان کو معلوم تھا کہ نوازشریف اپنی تقریر میں کیا کہیں گے جو انہوں نے تقریر کی اجازت دی یا عمران خان کو نوازشریف کی قابلیت کا اندازہ تھا کہ وہ ضرور کوئی نہ کوئی غلطی کرینگے اور اپنے پیر پر کلہاڑی ضرور ماریں گے۔ عمران خان نے جس طرح منی لانڈرنگ کا دروازہ بند کر دیا ہے جیسا کہ اپوزیشن 5 دفعہ اسمبلی میں ہار چکی ہے اس لئے عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کی ان میں استعداد نہیں تھی۔ اے پی سی کے فیصلے پیچھے رہ گئے اور نوازشریف کی تقریر آگے نکل گئی لیکن مولانا فضل الرحمن نے جو پیپلزپارٹی کےخلاف بیان دیا ہے وہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اے پی سی عمران خان کےخلاف ہے اور نوازشریف فوج کےخلاف اور یہی وجہ ان کی برطرف کا سبب بنتی ہے۔ لندن میں بیٹھ کر پلان دینے سے بہتر ہے کہ پاکستان آئیں اور مقابلہ کریں بہر حال عمران خان مبارکباد کے مستحق ہیں انہوں نے اشتہاری کو خطاب کرنے کی اجازت دی، بڑی ہمت کی بات ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے پاکستان یا لندن میں، میری ذاتی رائے تو یہی ہے کہ اب وہ سیاسی پناہ لے لیں گے اور اپنی باقی ماندہ زندگی عیش کےساتھ لندن میں اپنے دونوں بیٹوں کےساتھ گزاریں گے کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ پاکستان گیا تو میرے ساتھ کیا ہوگا، اس لئے بہتر ہی ہے کہ لندن میں ہی رہوں جس طرح الطاف حسین رہ رہے ہیں۔
٭٭٭