پاک افغان تنائو اور افغان بھارت بڑھتے مراسم

0
65
شمیم سیّد
شمیم سیّد

آج کل پاک افغان تعلقات تنائو کا شکار ہیں۔ ویسے تو یہ تعلقات کبھی بھی بہترین نہیں رہے ۔ اس کی وجہ افغان معاملات میں بھارتی مداخلت اور پشت پناہی ہے۔ عشروں کی دوستی اور مہمان نوازی کا بھی لحاظ نہ کیا گیا۔یہ بھی نہ دیکھا گیا کہ پاکستان جیسا مہمان نواز ملک صرف ہمارا ہمسایہ ہی نہیں بلکہ کئی جنگوں کا ساتھی بھی ہے۔کئی بحرانوں سے نکال چکا ہے اور دنیا بھر کے بہت سے سفارتی محاذوں پہ ہماری مدد کر چکا ہے۔پاکستان نے افغانستان کے جنگی مہاجرین کے لیے نہ صرف بارڈر کھول دئیے بلکہ اپنے گھر اور بازار بھی کھول دئیے۔کاروبار کرنے کی اجازت دی اور یہاں پھلنے پھولنے کا موقع دیا۔تعلیمی اداروں میں افغان نوجوانوں کو داخلہ دیا۔ان کے بہتر مستقبل کے لیے راہیں ہموار کیں۔مگر پاکستان کو صلہ یہ دیا گیا کہ کئی بار کی یاددہانی پہ بھی کراس بارڈر دہشت گردی نہ روکی گئی۔تحریک طالبان پاکستان کے سرکردہ رہنمائوں کو افغانستان میں پناہ دے کر پاکستان پہ حملوں کے لیے سہولت کاری کی گئی۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ افغانستان کئی سالوں کی جنگوں کے بعد اب ایک ذمہ دار ریاست کے طور پہ خود کو پیش کرتا۔عالمی منظر نامے پہ اپنا نام اور مقام بناتا۔سفارت کاری اور کاروبار کی نئی جہتیں تلاش کی جاتیں مگر افغان طالبان ابھی تک سازشوں اور ”شوق جہاد ”سے ہی باہر نہیں نکل پا رہے۔ تحریک طالبان پاکستان کی پاکستان دشمنی کی ایک طویل تاریخ ہے۔آرمی پبلک سکول پہ حملہ سمیت ان انتہاپسند گروہوں نے پاکستان کے اداروں،بازاروں حتی کہ عبادت گاہوں پہ بھی حملے کیے ہیں۔ہزاروں پاکستانیوں کا خون بہایا ہے۔بدامنی پھیلائی ہے۔اس تنظیم کی وجہ سے پاکستان کا بھی اقتصادی،جانی ،سیاسی اور سماجی نقصان ہوا ہے۔اب ریاست نے ان انتہاپسندوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا فیصلہ کیا ہے۔یہ فیصلہ اب پالیسی بن چکا ہے۔ملک کے اندر بھی اور باہر بھی۔یہ فیصلہ دیر آید ہے مگر درست آید ہے۔دہشت گردی کے خلاف جنگ کا حصہ بننے سے لے کر ابھی تک پاکستان نے کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ قربانیاں دی ہیں۔پاکستان نے کراس بارڈر دہشت گردی پہ بارہا افغانستان کو خبردار کیا۔مگر اس سلسلے میں کوئی عملی اقدامات نہ اٹھائے گئے۔ اب پاکستان افغانستان کے اندر گھس کے دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں کر رہا ہے تاکہ پاکستان پہ حملہ آور ہونے والی ہر قوت کا قلع قمع کیا جاسکے۔ ہم جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں کہ افغانستان کے بھارت کے ساتھ مراسم بڑھانے کی وجوہات کیا ہیں۔افغانستان سفارتی محاذ پہ تنہائی کا شکار ہے۔امریکہ اور نیٹو نے امریکہ چھوڑنے کے بعد دوبارہ مڑ کر نہیں دیکھا۔اسی طرح پاکستان کے ساتھ مختصر سی جنگ ہارنے کے بعد بھارت کی کامیاب فارن پالیسی کی قلعی کھل گئی ہے۔دونوں ممالک مل کر خطے کی چودھراہٹ پہ قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ افغانستان پاکستان میں مسلسل دہشت گردی کروا کے انڈیا سے فنڈنگ حاصل کرتا ہے۔جو اس کی مالی ضروریات پوری کرنے میں مددگار ہو سکتا ہے۔دونوں ملک پاکستان کو مشترکہ دشمن سمجھ کر حملہ آور ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اپریل میں اسحاق ڈار کے دور کابل کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات کے درمیان جمی برف تیزی سے پگھلنا شروع ہوئی جس کے بعد مئی میں اسحاق ڈار نے کابل کا دورہ کیا اور پاکستان ازبکستان کے درمیان براستہ افغانستان ٹرین چلانے کا اعلان بھی کیا گیا۔لیکن اس وقت پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات شدید کشیدگی کا شکار ہیں، جو 11 اور 12 اکتوبر کو شدید فوجی کشیدگی کے بعد خراب تر ہو گئے۔ دونوں اطراف نقصان ہوا لیکن زیادہ نقصان افغانستان کی طرف ہوا جنہوں نے پاکستان سے جنگ بندی کی درخواست کی جس کو قبول کیا گیا۔ چند روزقبل افغان وزیرِخارجہ نے بھارت میں کھڑے ہو کر مسئلہ کشمیر پر بھارتی موقف کی حمایت کر دی اور ایسا کرنے والا پہلا اسلامی ملک بن گیا تو دوسری طرف پاکستان نے اپنی اِس خواہش کا اظہار کر دیا کہ وہ افغانستان میں تمام فریقوں پر مشتمل ایک ہمہ جہت حکومت چاہتا ہے یعنی افغانستان کے اندر طالبان کی ساتھ ساتھ دوسرے فریقوں کو بھی حکومت میں شامل کیا جائے۔ کیا پاکستان اور افغانستان کے درمیاں حالات کی بہتری کا کوئی اِمکان ہے اور کیا دونوں ممالک بات چیت میں آنے والے تعطل کو دوبارہ شروع کر سکتے ہیں، پاکستان کی سرکاری پالیسی ہمیشہ واضح رہی ہیکہ ہم امن کے خواہاں ہیں، بلکہ امن کے لیے ہر ممکن کوشش کرنے کے قائل ہیں، مگر اپنے دفاع اور قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے ضروری اقدامات سے بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ یہی وہ موقف ہے جس کے تحت ہمیں موجودہ صورتحال کا جائزہ لینا چاہیے اور اپنے بیانیے کو مرتب کرتے ہوئے قومی مفاد، علاقائی امن اور سفارتی حکمتِ عملی کو یکساں اہمیت دینی چاہیے۔ یہ حقیقت کہ مسلمان ریاستیں ایک دوسرے کے خلاف ہتھیار نہ اٹھائیں، محض نظریہ نہیں بلکہ آئینی اور اخلاقی اصول بھی ہیں جن کے تحت پاکستان نے ہمیشہ پیش رفت کی ہے۔ مگر جب ہماری سرحد پر غیرملکی سازشیں، پراکسی کارروائیاں یا دراندازی کے ٹھوس شواہد سامنے آئیں تو ریاست کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی حدود کا دفاع کرے اور اپنے شہریوں کی سلامتی کا تحفظ یقینی بنائے۔ اسی باعث حالیہ دنوں میں سیزفائر اور مذاکرات کی کوششیں کی گئیںجو قابلِ ستائش ہیںکہ ریاستِ پاکستان نے ہر فورم پر واضح کیا ہے کہ حل کا راستہ ڈائیلاگ اور سفارتکاری ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ ناقابلِ قبول اشتعال انگیزی اور دہشت گردانہ کارروائیوں کو بے نقاب کر کے روکنا بھی ریاست کا حق اور فرض ہے۔ پاکستان کی حکومتی پالیسی میں دو بنیادی ستون ہیں: ایک طرف علاقائی استحکام کے لیے سفارتی کوششیں اور مذاکراتی عمل کی تائید، دوسری طرف سرحدی تحفظ اور انسدادِ دہشت گردی کی موثر کاروائی۔ یہی وہ توازن ہے جو ہمیں برقرار رکھنا ہے۔ ہم افغان حکومت، اداروں اور بین الاقوامی شراکت داروں کو واضح پیغام دے چکے ہیں کہ غیر ریاستی عناصر کو کسی بھی سرزمین سے پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیا جائے۔ اگر کسی قوت نے کسی بھی طرح سے ہمارے ملک میں دہشت گردی کو ہوا دینے کی کوشش کی تو اس کا موثر جواب دینے کا آئینی اور بین الاقوامی حق پاکستان کو حاصل ہے، مگر ہمارا موقف یہی ہے کہ اسکا حل فوجی کارروائی کے ذریعے طویل المدتی امن نہیں لائے گا ، حقیقی امن تب آ سکتا ہے جب افغان زمین کسی بیرونی ایجنڈے کے تحت استعمال نہ ہو اور باہمی اعتماد کی بنیاد پر مسائل حل کئے جائیں۔
٭٭٭

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here