ٹرمپ کی کوششیں رنگ لے آئیں،ایران، اسرائیل جنگ بندی پر متفق

0
50

واشنگٹن (پاکستان نیوز) صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلان کے بعد ایران اور اسرائیل نے جنگ بندی کے نفاذ کا اعلان کر دیا۔ ایران نے اسرائیل پر میزائل حملوں کے بعد جنگ بندی کے نفاذ کا اعلان کیا جبکہ نیتن یاہو نے بھی جنگ بندی کی تجویز قبول کر لی ہے۔ ٹرمپ نے اپنے تازہ بیان میں کہا ہے کہ کوئی فریق بھی سیز فائر کی خلاف ورزی نہ کرے۔ایک غیر متوقع اور ڈرامائی پیش رفت میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان مکمل اور حتمی جنگ بندی پر اتفاق ہو گیا ہے، جس کے تحت دونوں ممالک اپنی عسکری کارروائیاں روک دیں گے۔ ٹرمپ نے یہ اعلان اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ‘ٹروتھ سوشل’ پر کیا، جہاں انہوں نے لکھا: “مبارک ہو دنیا، ایران اور اسرائیل نے جنگ بندی پر اتفاق کر لیا ہے۔ان کے مطابق، جنگ بندی کے تحت ابتدائی طور پر ایران اپنے فوجی ا?پریشنز کو روکے گا، جبکہ اسرائیل بارہ گھنٹے بعد باضابطہ طور پر کارروائیاں بند کرے گا۔ چوبیس گھنٹے مکمل ہونے پر اس تاریخی جنگ بندی کو بین الاقوامی سطح پر 12 روزہ جنگ کے اختتام کے طور پر تسلیم کیا جائے گا۔ٹرمپ کا کہنا تھا کہ دونوں فریقین سے کہا گیا ہے کہ وہ اس عبوری مدت میں پرامن اور باعزت رویہ اختیار کریں، تاکہ کسی بھی قسم کی اشتعال انگیزی سے بچا جا سکے۔ انہوں نے اپنے پیغام میں جذباتی انداز اختیار کرتے ہوئے مزید کہا کہ یہ ایک ایسی جنگ تھی جو برسوں تک چل سکتی تھی، جو مشرقِ وسطیٰ کو مکمل تباہی کی طرف دھکیل دیتی، مگر ایسا نہیں ہوا، اور نہ ہی اب ہو گا۔امریکی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان ممکنہ جنگ بندی پر اتفاقِ رائے میں قطر نے اہم سفارتی کردار ادا کیا ہے۔ قطری وزیرِاعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن ا?ل ثانی نے اس معاہدے کو طے کروانے میں براہ راست مداخلت کی۔ قطر نے اس وقت ثالثی کا کردار ادا کیا، جب امریکا کی جانب سے جنگ بندی کی تجویز ایران تک پہنچانے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ قطری وزیرِاعظم نے ایرانی حکام سے ٹیلی فونک رابطہ کیا، جو اس وقت خاص طور پر اہمیت اختیار کر گیا جب ایران نے خطے میں امریکی فوجی اڈوں، بشمول قطر میں موجود اڈے، کو نشانہ بنایا تھا۔ایران کے وزیرِ خارجہ سید عباس عراقچی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر جاری اپنے تازہ بیان میں کہا ہے کہ اگر اسرائیل اپنی غیر قانونی جارحیت کو روکتا ہے، تو ایران بھی مزید جوابی کارروائی کا ارادہ نہیں رکھتا۔ عراقچی نے اپنے پیغام میں واضح کیا کہ جیسا کہ ایران متعدد بار بتا چکا ہے، جنگ کا ا?غاز اسرائیل نے کیا، نہ کہ ایران نے۔
وزیراعظم شہباز شریف کی زیرِ صدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا، اجلاس میں فیلڈ مارشل عاصم منیر نے بھی شرکت کی۔ قومی سلامتی کمیٹی نے فردو، نطنز اور اصفہان میں ایرانی جوہری تنصیبات پر ہونے والے حملوں کے بعد مزید کشیدگی کے خدشات پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔ کمیٹی نے ان غیر ذمہ دارانہ اقدامات کو خطے میں کشیدگی بڑھانے کا سبب قرار دیا، جو ایک وسیع تر تنازعہ کو ہوا دے سکتے ہیں اور بات چیت و سفارت کاری کے مواقع کو کمزور کر رہے ہیں۔ اجلاس میں پاکستان کی متعلقہ فریقین سے قریبی سفارتی مشاورت کی پالیسی کو دوبارہ واضح کیا گیا، اور اس عزم کا اعادہ کیا گیا کہ پاکستان خطے میں امن و استحکام کو فروغ دینے کے لیے اپنی کوششیں اور اقدامات جاری رکھے گا۔اسرائیل کی طرف سے جارحیت کا آغاز اس وقت کیا گیا جب امریکا اور ایران کے مذاکرات جاری تھے۔ مذاکرات کا اگلا دور 15 جون کو ہونا تھا۔ اسرائیل نے 13 جون کی رات کو اندھیرے میں ایرانی تنصیبات پر ہی حملہ نہیں کیا، بلکہ اعلیٰ فوجی کمانڈروں اور سائنسدانوں کو بھی شہید کر دیا۔ ایران کو اسرائیلی حملے کی تیاریوں کا علم یقینا تھا، مگر اسے گمان بھی نہیں تھا کہ مذاکرات کے اگلے دور سے پہلے حملہ ہو سکتا ہے۔ اسے امریکا کی طرف سے ایران کے ساتھ دھوکہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس جواز کو تقویت 21 جون کو امریکا کی جانب سے ایران کی نیوکلیئر تنصیبات پر Bـ2 جہازوں کی بمباری سے ملتی ہے۔دو روز قبل صدر ٹرمپ نے ایران کو دو ہفتوں میں معاملات درست کرنے کی مہلت دی تھی، جس میں 12 دن باقی تھے۔ امریکا نے ایرانی تین شہروں — فردو، نطنز اور اصفہان — میں موجود جوہری تنصیبات پر Bـ2جہازوں سے مہلک بم گرا دیے۔ ان شہروں میں جوہری مواد کو تباہ کرنے کا دعویٰ کیا گیا۔ اس آپریشن کو ”ہیمر” کا نام دیا گیا۔ ایران کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ حملے کی انہیں توقع تھی، اس لیے ان مقامات سے جوہری مواد ہٹا لیا گیا تھا۔صدر ٹرمپ نے مزید حملے کرنے کی دھمکی دی تھی۔ گزشتہ روز ایران کی طرف سے قطر، عراق اور شام میں امریکی ہوائی اڈوں پر حملہ کیا گیا۔ کیا یہ حملے امریکا کے لیے پریشانی کا باعث بنے؟ ایران کی طرف سے امریکا کے اس خطے میں مزید مفادات پر بھی حملے ہو سکتے تھے۔ صدر ٹرمپ اسی لئے جنگ بندی کی طرف آئے؟جنگ کا دائرہ ہر گزرتے دن کے ساتھ وسیع ہوتا جا رہا تھا، جو عالمی جنگ اور پھر نیوکلیئر وار میں تبدیل ہو سکتا تھا۔ اس جنگ میں اسرائیل نے جارحیت کی، جس کی پشت پناہی امریکا کی طرف سے کی جاتی رہی ہے، اور پھر امریکا بھی اس جنگ کا فریق بن گیا۔ ایران جارحیت کا نشانہ بنا ہے۔بہت اچھا ہوا کہ جنگ بندی ہو گئی، دنیا مزید تباہی سے بچ گئی۔ سوال یہ ہے کہ کیا امریکا نے اپنے مقاصد حاصل کر لیے، جو ایران کو ایٹمی پروگرام سے محروم کرنا چاہتا تھا؟ ایران کا دعویٰ ہے کہ اس کا ایٹمی پروگرام محفوظ ہے، جو جنگی مقاصد کے لیے نہیں ہے۔ اگر ایران کا ایٹمی مواد محفوظ ہے، تو اسرائیل پھر امریکا کی مدد سے ایران پر جارحیت کر سکتا ہے۔جنگ بندی کے بعد فریقین نے مذاکرات کی میز پر ہی آنا ہوتا ہے۔ مذاکرات تو پہلے ہی ایران کے ساتھ جاری تھے۔ اقوام متحدہ جو جنگوں میں غیر مو?ثر دکھائی دیتی رہی ہے، وہ امن کے دنوں میں جنگوں سے بچنے کی بہتر تدبیر کر سکتی ہے۔ اسے آئندہ کے متوقع امن معاہدے کو پائیدار بنانے کی طرف پیش قدمی کرنی چاہیے۔ اسرائیل فساد کی جڑ ہے، اس کے ہاتھ روکنے کا بہر صورت اہتمام کیا جائے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here