افضال فردوس ادبی دنیا کا وہ نام ہے جس نے اپنی شاعری سے بحر پاک و ہند اور امریکہ میں اپنے جھنڈے گاڑھے ہوئے ہیں اور اس وقت امریکہ میں ان جیسا کوئی دوسرا نظر نہیں آتا ان کے پاس الفاظوں کا ذخیرہ ہے اسی لیے میں نے کافی عرصہ پہلے انہیں جوش ثانی کا خطاب دیا تھا، چھوٹی عمر میں وہ اس قدر عمدہ غزلیں کہہ دیتے ہیں کہ سننے والا داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتا جبکہ ان کیلئے مدر ٹریسا جیسی خاتون نے تعریفی کلمات ادا کئے اس سے بڑا اور کیا اعزاز ہو سکتا ہے انٹرنیشنل آرٹس سوسائٹی کے زیر اہتمام تقریب اجراء کلیات افضال فردوس کے اعزاز میں ایک شام افضال فردوس کے نام سے ترکش سینٹر میں منائی گئی جس میں پاکستان سے عباس تابش، حماد غزنوی، عاطف توقیر نے بھی شرکت کی اور افضال فردوس کی شاعری پر اظہار خیال کیا۔ ہیوسٹن کے ایک بہت بڑے شاعر اور کالم نویس مجید اختر جو مقالہ لکھنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے انہوں نے افضال فردوس کے بارے میں جو مقالہ پڑھا وہ سننے کے قابل تھا میں اسی سے کچھ اقتسابات پیش کر رہا ہوں جو میرے قارئین کیلئے نہایت ہی توجہ کے حامل ہونگے اور افضال فردوس کے بارے میں چند معلومات میسر آئینگی۔ افضال فردوس ”ہمارا مہاتما” کے نام سے یہ مقالہ لکھا ہے جس کو وہاں موجود لوگوں نے خُوب سراہا۔ اس مقالے کا آغاز انہوں نے سورةکہف سے کیا غار والے لوگ چند جوان جو حاکم وقت کے جبر و استبداد سے بچ کر اپنے کتے کیساتھ ایک غار میں جا چھپے کہ وہاں چھپ کر خدا ئے واحد کی عبادت کرینگے یہی واقعہ بائبل کے اواخر کے ایڈیشنز میں ذکر ہوا ہے پھر واقعہ خضر اور موسیٰ کا پھر پہاڑوں میں ایک پیغمبر آتا ہے اور دو پہاڑوں کے بیچ فولاد اور پگھلا کر ایک دیوار تعمیر کرتے ہیں ان کا نام نامی ذولقرنین ہے برصغیر کے چند ایک مفسرین کا کہنا ہے کہ یہ اشارہ مہاتما گوتم بدھ کی طرف ہے۔ پاک و ہند کی سرزمین پر حکومت الٰہیہ کا ایک ہی نمائندہ اایا اور وہ گوتم بدھ تھے آپ کی فکر کو ایک نظم سنانا چاہتا ہوں۔
گولی کان کو زن سے چُھو کر گزری گوتم نے گھبرا کر آنکھیں کھولیں
اور دیکھا زیتون پہ بیٹھی فاختہ خون میں لتھڑی ہے جنگل جھلس رہا ہے۔ لاشیں پت جھڑ کے پتوں کی صورت بکھری ہیں پھٹی پھٹی آنکھوں سے آنسو ٹپکے
گوتم نے گھبرا کر پوچھا یہ سب کیا ہے کون …… ہے میں کہاں ہوں
یہ سن انیس سو چوراسی ہے اور یہ ایک لبنانی وادی کا جنگل ہے
اب ایک کام کریں اس نظم میں ایک عدد اور ایک لفظ بدلتے ہیں، انیس سو چوراسی کی جگہ دو ہزار پچیس کر لیں اور لبنان کی جگہ غزہ لکھ دیں اس طرح چالیس برس کے بعد یہ نظم صرف دو تبدیلیوں کے بعد آج بھی ریلوینٹ ہو جاتی ہے اور ایسی ہی شاعری آفاقی یا یونیورسل کہلاتی ہے، اس عظیم نطم کا خالق وہ ہے جس کے اعزاز میں یہ شام سجائی گئی ہے وہ پادری ڈاکٹر افضال فردوس ہیں، جن کو تین پیاری بیٹیاں خدا ند نے عطاء کی ہیں ان کے علاوہ ایک چرچ پر شدید خونی حملے میں یتیم اور لاوارث ہو جانے والی سولہ بیٹیاں اور چودہ فرزند بھی ہیں جو انہوں نے اڈاپڈ کر رکھے ہیں مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ شاعری کے برگد تلے گیان اور دھیان میں آنکھیں موندے چین سے بیٹھے افضال فردوس نامی یہ بابا دین دیال خود بھی ایک مہاتما ہیں۔ دھیمے، بامروت، لہجے اور بہت علمی گفتگو کرنے والے یہ حضرت بلا کے شاعر ہیں ان کی کتابوں اور شاعری کی مدر ٹریسا جیسی خاتون نے بھی تعریف و توصیف کی ان کے چھ مجموعے ہیں اور آج اُن کی کلیات کی رونمائی کی تقریب سے انٹرنیشنل آرٹس سوسائٹی کے باسط جلیلی اور فیاض مرچنٹ ہمارے شکریہ کے مستحق ہیں کہ وہ اہلیان ہیوسٹن کی جانب سے یہ فرض کفایتی ادا کر رہے ہیں کچھ اشعار ملاحظہ ہوں!
یاد کرتا ہے مجھے کبھی سچل سرمست
سندھ سے میری بھی اجرک آتی ہے
خوابوں کی تعبیر بنانی پڑتی ہے
سوئی ہوئی تقدیر جگانی پڑتی ہے
جب کوئی انسان مسیح بن جاتا ہے
اپنی سوئی آپ اُٹھانی پڑتی ہے
طاق میں آنکھیں رکھ دینا
دل کا دیپ جلا دینا
گھرکی تھوڑی سی مٹی
چٹھی میں بھجوا دینا
میں خاک میں ملے ہوئے گلاب دیکھتا رہا
اور آنے والے موسموں کے خواب دیکھتا رہا
کسی نے مجھ سے کہہ دیا تھا زندگی پہ غور کر
میں شاخ پر کھلا ہوا گلاب دیکھتا رہا
شاخ پر کھلا ہوا گلاب اور آنے والے موسموں کا خواب دیکھنے والا یہ من موجی شاعر ہمارا اور آپ کا افضال فردوس ہے میں اس شاعر کو عظیم خراج عقیدت پیش کرتا ہوں ایک پیغام حاضرین اور منتطمین سے بھی شیئر کرتا جائوں کہ جب ہم نصرت فتح علی خان کی قدر کرنا چھوڑ دیتے ہیں تو قدرت ہمیں چاہت فتح علی خان کی صورت میں سزا دیتی ہے اور اگر آج ہم نے افضال فردوس، عشرت آفرین و عارف امام جیسے قد آور اور ہیوسٹن میں مقیم شعراء کی قدر نہیں کی تو خدا جانے آنے والے وقتوں میں ہمار ااعلیٰ ادبی ذوق اور عمدہ شاعری سننے کا شوق کس سزا کا مستحق ٹھہرے، بشکریہ مجید اختر۔
٭٭٭














