افواج پاکستان کے چیف آف اسٹاف عاصم منیر اپنے دورہ وائٹ ہاؤس میں صدر امریکا ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ظہرانا تناول فرمایا، اِس کا چرچا زبان زد عام ساری دنیا میں سمندر کی ٹھنڈی ہوا کی طرح پھیل گیا بعض لکھاریوں نے اِسے لنچ سے تعبیر کیا ہے ، دراصل وہ لنچ نہیں ہوسکتا ، کیونکہ صدر امریکا ڈونلڈ ٹرمپ نے عاصم منیر کیلئے ایک سوس شیف سے خصوصی طور پر آم کی چٹنی بنوائی تھی، چٹنی ہمیشہ ظہرانے میں کھائی جاتی ہے ، نہ کہ لنچ میں، لنچ میں تو سوکھے سوکھے سینڈوچ کو کولڈ ڈرنک کے ساتھ زہر مار کیا جاتا ہے، صدر ٹرمپ کے ساتھ ظہرانے کرنے کی خبر تو بھارت میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی ہے، وزیراعظم نریندر مودی کے چمچوں نے تو اُنہیں آگ بگولا کردیا۔ ایک چمچے نے تو اُنہیں کہا کہ ” گرو! یہ کیا ہورہا ہے، دشمن ملک کے سپہ سالار تو ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ظہرانا کر رہے ہیں ، اور ہمیں صرف تنبیہہ پر تنبیہہ دی جارہی ہیں، ذرا اپنے ودیش منتری کو بلا کر پوچھیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ وہ کوئی محکمہ چلارہے ہیں یا کریانہ کی دکان ٹھیک ہے ۔بلاؤ جے شنکر کو ، وہ اپنے آپ کو بہت بڑا بقراط سمجھتے ہیں ، حتی کہ صدر ٹرمپ کے ساتھ لنچ بھی نہیں کر سکتے،گروجی ! اُنہوں نے کہا ہے کہ بھارت کو جنگ میں شکست ہوگئی تھی، اِسلئے ہمیں اُس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا، ارے واہ یہ بھی کوئی بات ہوئی، جنگ میں اگر شکست ہوئی بھی تو کیا ہم قیامت تک اُس کا ٹیکہ اپنے ماتھے پر لگائے رکھیں ” دراصل منتری جے شنکر نے کہا ہے کہ ”ہمیں پھر شکست ہوجائیگی، یہ ستارے کے گردش میں ہونے کی پہچان ہے”ایران کی یہ خوش قسمتی ہے کہ ہزاروں اختلافات کے باوجود بھی عرب و اسلامی ممالک میں اُس کیلئے محبت کا زمزمہ بہہ رہا ہے، اسرائیلی فضائیہ کی ایرانی ایٹمی تنصیبات پر متواتر حملے کے فورا”بعد ہی عرب امارات کی حکومت نے ایرانیوں کیلئے مدت ویزا میں توسیع کی فیس کو معطل کردیا ہے۔گزشتہ منگل کے دِن امارات کے سر براہ شیخ محمد بِن زید نے ایران کے صدر کو کال کیا اور ایران اور اُس کے عوام کے ساتھ اِس ا متحان کی گھڑی میں مکمل یکجہتی کا اظہار کیا، در حقیقت خلیج کی ریاستیں جو ماضی میں اسرائیل کی حکومت کے ساتھ خوشگوار تعلقات کی خواہاں تھیں اب یہ سوچنے پر مجبور ہوگئی ہیں کہ ایران کے ساتھ اچھے تعلقات اُن کیلئے زیادہ سود مند ہیں، خصوصی طور پر جبکہ غزہ میں جنگ جاری ہے اور جس کے ختم ہونے کے کوئی امکانات نظر نہیں آرہے ہیں اور جو اُس خطے کے عوام میں مایوسی ، بے چارگی اور غم و غصے کا باعث بن گئی ہے ، اُس خطے کے ارباب حل وعقد یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیںکہ اسرائیل کا وجود اُس خطے کیلئے غیر مستحکم اور افراتفری کا باعث ہے، دبئی جو متحدہ عرب امارات کا سب سے بڑا شہر ہے جس کے شہری ایران اسرائیل کے مابین جاری جنگ کو اپنے دریچے پر مشاہدہ کر رہے ہیں لیکن اُنہیں سب سے زیادہ اِس بات کا خدشہ ہے کہ اگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل کی حمایت میں جنگ میں شامل ہوجاتے ہیں تو انتقاما”ایران کی حکومت اُن کے ملک میں امریکی اثاثے اور جنگی لوازمات کی دھجیاں اُڑانے میں کوئی دقیقہ فردگذگشت نہیں کرے گی،باوجود کہ امارات کی حکومت کو ایران کے ساتھ متعدد تحفظات ہیں، لیکن پھر بھی وہاں کے عوام خونریزی اور قانون شکنی کا ذمہ دار اسرائیل ہی کو ٹہراتے ہیں، تازہ ترین صورتحال میں ایک پاگل انسان جس کے ہاتھ میں ریوالور ہے، وہ اسرائیل ہے، دنیا میں شاید ہی کوئی اور ملک ہو جو جنگ بندی نہ چاہتا ہو۔تاہنوز حالات سے ایسا معلوم ہورہا ہے کہ صدر امریکا ڈونلڈ ٹرمپ میں اتنی صلاحیت ہی موجود نہیں کہ وہ ایران – اسرائیل کشیدگی کو ختم کراسکیں حالانکہ جب 13 جون 2025 ء کو اسرائیل نے جنگ کی پہل کی تھی تو اُس کے ایک گھنٹے بعد ہی صدر ٹرمپ نے یہ بیان دیا تھا کہ وہ جلد ہی کشیدگی ختم کرادینگے، ساری دنیا صدر ٹرمپ سے یہ توقع لگائے بیٹھی ہے کہ ایران اسرائیل کے مابین کشیدگی ختم کرانے کیلئے جو ڈرافٹ صدر ٹرمپ نے بنایا ہے اُسے وہ جلد ہی اپنے بریف کیس سے نکال کر وزیر خارجہ مارکو روبیو کے حوالے کر دینگے یا نہیں تو اُسے ٹیلی ویژن کے کیمرہ مینوں کے سامنے پیش کردینگے جیسا کہ وہ روزانہ ایک لائن لکھ کر میڈیا کے نمائندوں کو بلا لیتے ہیں اور کہتے ہیں دیکھو میں نے کیا لکھا ہے،صدر ٹرمپ کا بارہا ایسا وعدہ جس کا ایفا اُن کے بس میں نہیں اور جس کے کرنے کے صدر ٹرمپ بیس سال قبل عادی تھے۔ مثلا”کسی مرمریں خوابوں کی پریوں کی کمر میں ہاتھ ڈالے لار ا لپّا کرنا اور پھر بوسہ لے کر چھوڑ دینا اور کہنا کہ تمہیں اکیڈیمی ایوارڈ دلواکر رہونگا اگر تم مجھے اپنے دِل کا ایوارڈ دے دونگی لیکن ابھی تو امن کے ایوارڈ کیلئے لوگ بے چین ہیں اور خود صدر ٹرمپ بھی، آخر امن ایوارڈ کمیٹی اُنہیں کس طرح نوبل پرائز کیلئے نامزد کرسکتی ہے جبکہ اُن کا ریکارڈ انتہائی پھُس پھسا رہا ہے۔ ہر گھنٹے وہ وعدہ کرتے ہیں کہ وہ مشرق وسطی میں کشیدگی ختم کرادینگے لیکن دوسرے گھنٹے ٹال مٹول اُن کا وطیرہ بن جاتا ہے، جب پہلی مرتبہ اُنہوں نے اعلان کیا کہ وہ جنگ بندی کرادینگے تو آئندہ چوبیس گھنٹے تک اُس کا کوئی نام و نشان نظر نہ آیا، دوسری مرتبہ اُنہوں نے اعلان کیا لیکن اُس کے ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ اگر دونوں فریق اُن کی سنیں، لیکن وہ سننے کا نام ہی نہیں لے رہے ہیں ادھر اسرائیل ایک میزائل کا حملہ کرتا ہے تو ایران اُس کے جواب میں پانچ میزائل کا دھماکا کر دیتا ہے لیکن پھر بھی وہ امریکی عوام سے وعدہ کرتے ہیں کہ آئندہ چوبیس گھنٹے میں وہ ہر قیمت پر اسرائیل اور ایران کے مابین جنگ بندی کرادینگے۔












