لاہور:
پی ایس ایل کی کشتی ڈوبتی دیکھ کر سابق کرکٹرزرنجیدہ ہیں، انھوں نے تنازع کو پاکستان کرکٹ کے لیے زہر قاتل قرار دے دیا،عاقب جاوید کا کہنا ہے کہ فرنچائزز کے ساتھ ایسوسی ایشنز جیسا سلوک نہ کیا جائے،مشکل وقت میں ساتھ دینے والی ٹیموں نے اربوں روپے کا خسارہ برداشت کیا،کسی ایک فریق کو تحفظ دینے والا سسٹم زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا،ایک برانڈ بن گیا ہے تو اسے بچانا ہوگا۔ راشد لطیف کا کہنا ہے کہ فرنچائزز کی حوصلہ افزائی کرنا چاہیے تھی مگر کہا جاتا ہے ٹیمیں چلانا ہیں تو چلائیں ورنہ چھوڑ دیں، امور متکبرانہ انداز میں نہیں چلائے جا سکتے، مدد کرنے والوں کو ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے، مسائل کورٹ کے باہر ہی حل نہ کیے تو پاکستان کرکٹ کا نقصان ہوگا۔
تفصیلات کے مطابق نمائندہ ’’ایکسپریس‘‘ سے گفتگوکرتے ہوئے سابق ٹیسٹ کرکٹر عاقب جاوید نے کہاکہ فرنچائزز نے اس وقت سرمایہ کاری کی جب کسی کو پی ایس ایل کے مستقبل کا علم نہیں تھا، آغاز میں جو ماڈل بنایا اس میں آئی پی ایل کی طرز پر ہوم اینڈ اوے میچز کا تصور تھا، میزبان ٹیم کو کمائی کا زیادہ حصہ ملتا مگر بیشتر میچز یو اے ای میں ہوتے رہے یوں یہ پلان عملی طور پر غیر موثر رہا، مشکل وقت میں بھی فرنچائزز نے پی سی بی کا ساتھ نہیں چھوڑا، ہر ٹیم کی قیمت خرید مختلف ہونے کے باوجود سرمایہ کاری کے لحاظ سے منافع کا حصہ نہ دینے کی پالیسی اور فنانشل ماڈل پر تحفظات کا اظہار سابق چیئرمین پی سی بی نجم سیٹھی کے دور میں بھی کیا جاتا رہا مگر انھوں نے مطالبات کو نظر انداز کیا، بعد ازاں موجودہ مینجمنٹ نے بھی ایسا ہی طرز عمل جاری رکھا، یہی کہا جاتا رہا کہ بینک گارنٹی کی رقم جمع کرا دو اس کے بعد بات کریں گے، یہ بھی کہا جاتا رہا کہ پی ایس ایل کے معاملات چلانے کے لیے الگ کمپنی بنائیں گے۔
فرنچائزز ممبرز کے طور پر شامل اور فیصلوں میں شریک ہوں گے لیکن اس ضمن میں بھی کوئی پیش رفت نظر نہیں آئی، اسی وجہ سے انتظامی صورتحال یہ ہے کہ پی ایس ایل کے اخراجات بہت زیادہ ہیں، فیصلوں میں آزاد مینجمنٹ جس کوچاہے بھاری ادائیگی کردیتی ہے، مثال کے طور پر رواں سال ہونے والی افتتاحی تقریب ہی دیکھ لیں، اس صورتحال میں سب سے کم سرمایہ کاری کرنے والی فرنچائز کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کو منافع نہیں ہوسکا تو دیگر کے کیا حالات ہوں گے،انھوں نے کہا کہ فرنچائزز نے اربوں روپے کا خسارہ برداشت کیا ہے۔
منافع کمانے والے پی سی بی کو ان کے ساتھ ایسوسی ایشنز جیسا سلوک نہیں کرنا چاہیے، فرنچائز پیسہ دیتی جبکہ ایسوسی ایشنز وصول کرتی ہیں،پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار پی ایس ایل کی صورت میں کوئی بڑا برانڈ سامنے آیا ہے تو اس کو بچانا ہوگا، فرنچائزز پارٹنرز ہیں، ان کے تحفظات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے، عدالت میں کیس کا فیصلہ سامنے آنے سے قبل آپس میں مل بیٹھ کر مسائل حل کر لیے جائیں تو بہتر ہوگا، کسی بھی شعبے میں ایک پارٹی کو مالی تحفظ حاصل ہونے سے سسٹم زیادہ دیر تک نہیں چلائے جا سکتے۔
یہاں پی سی بی فائدہ میں اور فرنچائزز نقصان میں جا رہی ہیں، لاہور قلندرز کے ہیڈ کوچ نے مزید کہا کہ ہماری ٹیم نے پی ایس ایل میں معمول کی سرگرمیوں سے ہٹ کر بھی سرمایہ کاری کرتے ہوئے فرنچائز کو ایک برانڈ بنایا، معاہدے کی مدت ختم ہونے کے بعد پی سی بی اسے نئی قیمت پر کسی نئے مالک کو فروخت کرے تو سرمایہ کاری کرنے والے کا دل تو ٹوٹے گا، اسی رویے کی وجہ سے ملتان سلطانز کے پہلے مالکان مایوس ہو کر ٹیم چھوڑ گئے،نئے اونر نے زیادہ سرمایہ خرچ کرکے فرنچائز تو خرید لی،خدشہ ہے کہ وہ بھی 1،2 سال بعد پیچھے نہ ہٹ جائیں، گھاٹے کا سودا خریدنے کے لیے نیا مالک کہاں سے آئے گا، بہتر یہی ہے کہ معاملات افہام و تفہیم سے حل ہوں اور پی ایس ایل کا پودا پھلتا پھولتا رہے۔
راشد لطیف نے کہاکہ فرنچائزز نے پاکستان کرکٹ کو بڑا سپورٹ کیا ہے جواب میں پی سی بی کو بھی ان کی حوصلہ افزائی کرنا چاہیے تھی،موجودہ فنانشل ماڈل پاکستان کی صورتحال میں مناسب نہیں تھا، فرنچائزز کو یہی بتایا گیا کہ3 سال بعد منافع شروع ہو جائے گا، مالکان نے 5سال تک انتظار کر لیا، اب کم از کم ان کے جائز مطالبات ہی تسلیم کرلیں،ان کو کہا جاتا ہے کہ ٹیم کو چلانا ہے تو چلائیں ورنہ چھوڑ دیں، متکبرانہ انداز میں تو معاملات نہیں چلائے جا سکتے، مدد کرنے والوں کو ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے۔
پروفیشنل لوگ اس انداز میں نہیں سوچتے جو کسی کے دباؤ پر بھرتی کیے گئے ہوں ان کو پرواہ نہیں ہوتی،انھوں نے کہا کہ میرا تو اب بھی یہی مشورہ ہے کہ عدالت سے باہر بیٹھ کر ہی مسائل کا حل تلاش کیا جائے ورنہ پاکستان کرکٹ کا بڑا نقصان ہو جائے گا،سوچنا چاہیے کہ اگر پی ایس ایل 5کے باقی میچز ہی نہیں ہوتے تو کتنا بْرا اثر پڑے گا۔