ہاتھی کسان کا ساتھی!!!

0
129
حیدر علی
حیدر علی

حیدر علی

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وقت کی مسافت کے ساتھ ساتھ بادشاہ اور کسان کے مابین جاہ و حشمت کی خلیج پُر ہوتی جارہی ہے یہی وجہ ہے کہ مغل شہنشاہ شاجہان نے جہاں اپنی شریک حیات ممتاز محل کی یادگار کیلئے تاج محل تعمیر کروایا تھا۔ وہاں آج لال منیر ہاٹ ،بنگلہ دیش کا ایک کسان دُلال چندررائے نے بھی اپنی بیگم کے خواب کی تعبیر کیلئے ساڑھے 16 لاکھ ٹاکا میں ایک ہاتھی خریدنے میں کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا، یہ اور بات ہے کہ اُسے اپنی 4 بیگہ قابل کاشت زمین میں سے تین بیگے کو فروخت کرنا پڑا۔
( ایک بیگہ برابر ہے 1938 اسکوائر گز کے) صرف یہی نہیں اُسے ہاتھی کی نگرانی کیلئے ایک مہاوت کو بھی ملازم رکھنا پڑا ، جس کی تنخواہ 15 ہزار روپے ماہانہ مع تین وقت کے کھانے کے ساتھ ہے، مہاوت بھی اتنی ہی غذا کھاتا ہے جتنی ہاتھی صبح کے ناشتہ میں آٹھ روٹی ، دو انڈے کے آملیٹ ، ایک گلاس بالائی اور دودھ کا ایک گلاس شامل ہوتا ہے، یہ تو خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ یہ ساری چیزیں کسان دُلال کے گھر سے ہی دستیاب ہو جاتی ہیں اور اُسے ایک پائی بھی اپنی دھوتی کے کسی کونے سے نکالنے کی ضرورت نہیں پڑتی تاہم اِس کے صلہ میں مہاوت ہاتھی کی ایسی دیکھ بال کرتا ہے جو کسی چڑیا گھر کے ڈائریکٹر بھی دیکھیں تو شرما جائیں۔ ہاتھی ہر وقت چمکتی رہتی ہے جو اِس بات کی غمازی ہے کہ مہاوت اُس کے جسم میں کوئی عمدہ قسم کی کریم کی مالش کرتا ہے،وہ ہر ایک سے مسکراتے ہوئے مخاطب ہوتی ہے۔ پاگل ہونے کا کوئی شائبہ اُس میں موجود نہیں ہے، خدانخواستہ اگر ہاتھی پاگل ہوجائے تو بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ کی حکومت متزلزل ہوجائے، ہاتھی وہ بھی کسی ہندو کسان کی، دُلال کی بیگم طُلسی رانی نے آج سے چند سال قبل خواب میں یہ دیکھا تھا کہ کوئی غیبی قوت اُس سے مخاطب ہے، وہ اُسے کہہ رہی ہے کہ اپنی دائمی علالت کو دور کرنے کیلئے وہ کوئی نایاب جانور مثلا” گھوڑا، ہاتھی، بطخ یا بکری خریدے اور اُس کی پرورش کرے، دُلال اور طُلسی کی شادی 20 سال قبل ہوئی تھی ا ور اُنکے دو بچے ہیں، غیبی قوت کے حکم پر طُلسی نے اپنے گھر کے کئی کمروں کو عبادت گاہ میں تبدیل کر دیا ہے اور اُن میں بھگوانوں دیویوں کے بُتوں کو عبادت کیلئے رکھ دیا لیکن طُلسی کی صحت روبہ زوال ہی رہی اور اُس میں امید کی کوئی کرن نظر نہ آئی جو دُلال کیلئے سخت باعث تشویش تھی۔دُلال جو محبت کا رسیا شوہر، اپنی بیوی کیلئے سب کچھ کیا جو ممکن تھا اور اُس میں ہاتھی خریدنے کی بات بھی اُس کی تمناﺅں کی خیالی فہرست میں شامل تھی اور اُس نے ہاتھی خرید لی۔
ہاتھی کے آتے ہی طُلسی بہتر محسوس کرنے لگی، اُس نے کہا کہ ” وہ ہاتھی کی دیکھ بال کر رہی ہے اور اُس کی پرستش بھی کرتی ہے، اُس نے یقین محکم کے ساتھ یہ بھی کہا کہ اُس کے گھر کا کوئی فرد یا جانور ہاتھی کے آنے سے فاقہ کشی کا شکار نہیں ہوا ہے، خدا تمام جانوروں اور انسانوں کا سبب الاسباب ہے اور ہم سب مل جل کر خوش خوش رہتے ہیں۔ہاتھی کی آمد سے لال منیر ہاٹ کے اُس گا¶ں کی رونق میں بھی دِن دونی رات چوگنی اضافہ ہوگیا،دُلال کے گھر جہاں ہاتھی قیام پذیر ہے، اُسکے ارد گرد کئی پھیری والے بیر ، کیلے اور آئسکریم فروخت کرنے لگے ہیں، چند دِن بعد باٹا شو کا ایک چھوٹا سا سٹور بھی ایک مقامی تاجر نے کھول دیا ہے ۔ گا¶ں کے اِس پیش رفت کو مدنظر رکھتے ہوے لال منیر ہاٹ کے ڈی آئی جی نے فوری طور پر وہاں دو پولیس والوں کی ڈیوٹی لگا دی، پولیس والے مہاوت سے درخواست کی کہ وہ ہاتھی پر بیٹھنا چاہتے ہیں لیکن مہاوت نے فورا” اُن کی درخواست کو مسترد کردی اور کہا کہ ہاتھی پر صرف کسان دُلال یا اُن کی پتی بیٹھ سکتی ہیں تاہم دور دراز کے لوگ ہاتھی کو دیکھنے کیلئے دُلال کے گا¶ں آنا شروع ہوگئے۔ 85 سالہ نریندر بارمین ہاتھی پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہوے کہا کہ اُس نے ہاتھی زمینداروں اور نوابوں کی کھوٹیوں میں تو دیکھی ہے ، لیکن آج پہلی مرتبہ وہ ہاتھی کسی کسان کے گھر میں دیکھ رہا ہے۔ہاتھی جب آتی ہے تو اپنے ساتھ بہت سارے لوازمات کو بھی لاتی ہے، مثلا”دُلال کے گا¶ں کے دو نوجوانوں نے ہاتھی کی مفت خدمت کرنے کیلئے اپنی پیشکش کردی ہے تاکہ وہ ہاتھی مینجمنٹ کی تربیت حاصل کر سکیں۔ عموما”جب ہاتھی کسی غیر ملک جاتی ہے تو اُس کے ساتھ ایک تربیت یافتہ مہاوت بھی جاتا ہے، اِس لئے ہاتھی مینجمنٹ کی تربیت حاصل کرنا کوئی خرافات نہیں ہے لیکن جب ہاتھی کے سفر کی بات چلی تو حکومت بنگلہ دیش کیلئے یہ ایک پُر اسرار معمہ بن گیا ہے کہ دُلال کسان کی ہاتھی کا اصل شجرہ نسب کیا ہے اگر وہ بھارتی ہے تو بنگلہ دیش آنے کا ویزا اُسے کس نے دیا ہے یا پھر وہ بنگلہ دیش غیر قانونی طور پر لائی گئی ہے بعض تنگ نظر لوگوں نے یہ شبہ بھی ظاہر کیا ہے کہ مہاوت کی سازش سے کسی گروہ نے ہاتھی کو بھارت سے چوری کر کے لال منیر ہاٹ پہنچا دیا ہے، ویسے بھی لال منیرہاٹ بھارت کے سرحدی علاقے پر واقع ہے۔
ہاتھی کی شادی دُلال کسان کے گا¶ں کے چند بزرگ حضرات اُسے مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ اپنی ہاتھی جو نر ہے اُس کےلئے وہ کوئی مادہ ہاتھی کا رشتہ تلاش کرے تاکہ اُن کے گاﺅں میں ہاتھی کی تعداد میں اضافہ ہوسکے اور دُلال کی ہاتھی کے بھی دِل بہلانے کیلئے کوئی سامان مہیا ہوجائے تاہم دُلال نے اِس قیاس آرائی کو یکسر مسترد کر دیا ہے، اُس کا کہنا ہے کہ ایک ہاتھی کی کفالت کرنے میں ہی اُس کی حالت پتلی ہوگئی ہے اور اگر وہ دو ہاتھی لے آیا تو شاید اُس کے بیٹے ہاتھی سمیت اُسے گھر سے نکال دیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here