لاہور:
فیڈرل بورڈ آف ریونیو کیلیے اسمگلنگ کی روک تھام ایک بڑا چیلنج بن گئی ہے جب کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF ) کو یقین دہانی کروانے کے باوجود ابھی تک کسٹم بارڈر فورس کا قیام عمل میں نہیں لایا جا سکا ہے۔
اسمگلنگ کی مد میں سالانہ 450 ارب سے زائد جبکہ انڈر انوائسنگ کی وجہ سے سالانہ 200 ارب روپے سے زائد کا نقصان ہونے کے باوجود حکومت نے اسمگلنگ کی روک تھام کیلیے مختلف وزارتوں اور محکموں میں قابل عمل اور نتیجہ خیز معاونت نہیں کروائی ہے۔
ایف بی آر کے رولز آف بزنس میں انسداد اسمگلنگ کیلیے ’’ رابطہ کاری ‘‘ کا کہیں ذکر نہیں ہے جبکہ یہ ذمے داری قواعد و ضوابط کے تحت وفاقی وزارت داخلہ کے ذمہ ہے کہ اس نے مختلف محکموں کے اشتراک سے ملکی سرحدوں پر اسمگلنگ کی روک تھام کیلیے اقدامات کرنا ہیں ۔ پاک افغان سرحد پر خاردار تار کی باڑ لگنے کے بعد سمگلرز نے غیر روایتی راستے تلاش کر کے وہاں سے اسمگلنگ شروع کردی ہے ۔
چند برس قبل محکمہ کسٹمز کی ایک ریسرچ رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان میں اسمگلنگ کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے اور محتاط اندازے کے مطابق قومی خزانے کو سالانہ 3 ارب ڈالرکے لگ بھگ نقصان ہو رہا ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ کسٹم افسروں کی جانب سے تیار کردہ اس تحقیق کو اس وقت کے ایف بی آر حکام نے تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔ گزشتہ برس بھی اور چند ماہ قبل بھی حکومت پاکستان نے FATF کو یقین دہانی کروائی تھی کہ منی لانڈرنگ اور سمگلنگ کی روک تھام کیلئے کسٹم بارڈر فورس قائم کی جائے گی۔
پاکستان کسٹمز کے سینئر افسر نے ’’ ایکسپریس ‘‘ سے گفتگو میں کہا کہ موجودہ صورتحال میں اسمگلنگ کی روک تھام کرنا محکمہ کسٹمز کے بس میں نہیں رہا۔