کراچی:
شاہ فیصل کالونی میں معروف عالم دین اور جامعہ فاروقیہ کے مہتمم مولانا ڈاکٹر عادل خان کو ڈرائیور سمیت سر راہ ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنائے جانے کے واقعے نے پولیس کے خفیہ شعبے کی قلعی کھول دی۔
سی ٹی ڈی سمیت انویسٹی گیشن پولیس کی ناقص تفتیش کے باعث ڈیڑھ سال قبل 22 مارچ 2019 کو نیپا فلائی اوور کے قریب جید عالم دین شیخ الحدیث نائب مہتمم درالعلوم کراچی مفتی تقی عثمانی کی گاڑی پر فائرنگ میں ملوث دہشت گردوں کا بھی تاحال سراغ نہیں لگایا جا سکا۔
حملے میں مفتی تقی عثمانی ، ان کی اہلیہ ، پوتی اور پوتا معجزانہ طور پر محفوظ رہے تاہم دہشت گردی کے اس حملے میں مفتی تقی عثمانی کی گاڑی کا ڈرائیور حبیب زخمی جبکہ پولیس گارڈ محمد فاروق شہید ہوگیا تھا حملے میں دوسری گاڑی میں سوار مولانا عامر شہاب شدید زخی جبکہ درالعلوم کراچی کا محافظ صنوبر خان شہید ہوگیا تھا۔
بعدازاں مولانا عامر شہاب کچھ روز زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد خالق حقیقی سے جا ملے۔
دہشت گردی کے واقعے کا مقدمہ ایس ایچ او عزیز بھٹی عدیل افضال کی مدعیت میں نامعلوم دہشت گردوں کے خلاف قتل ، اقدام قتل اور دہشت گردی کی دفعہ کے تحت مقدمہ درج کر کے اس کی تفتیش کائونٹر ٹیرر ازم ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کو منتقل کر دی گئی تھی جو تقریباً ڈیڑھ سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود دہشت گردوں کا سراغ لگانے میں ناکام رہی۔
شاہ فیصل کالونی میں مولانا عادل خان اور ڈرائیور کی ٹارگٹ کلنگ کے بعد سی ٹی ڈی کی جانب سے یہ بیان سامنے آیا ہے کہ دہشت گردی میں 2 پڑوسی ملک کے ملوث ہونے کے شواہد ملے ہیں۔
مفتی تقی عثمانی کی گاڑیوں پر فائرنگ کے واقعے کے بعد جائے وقوعہ کا دورہ کرنے والے اس وقت کے کراچی پولیس چیف ڈاکٹر امیر شیخ نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ جس طرح چینی قونصل خانے پر کیے جانے والے حملے کی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ اس میں سرحد پار ملک دشمن قوتیں ملوث ہیں۔