پیارے نبیﷺ کا جشن میلاد اور گستاخانہ شیطانی خاکے!!!

0
204

Ramzan Rana. Legal Analyst. M. A , LLB & LLM (USA

بلا شبہ رسول مقبول حضور اکرمﷺ ہمارے والدی، بچوں اور پیاروں سے زیادہ پیارے نبی ہیں جن پر ہماری جان و مال قربان ہو، جنہوں نے انسانیت کو ایسا درس دیا ہے جس سے انسانوں کو جہالت، بربریت اور عہد غلامی سے نجات ملی ہے، حضور پاکﷺ نے محبت و پیار اور امن کا پرچار کیا۔ جنگ و جدل میں عورتوں، بچوں، بوڑھوں، بیماروں، جانوروں، فصلوں، پودوں، جنگلوں کو قتل و غارت گردی، تباہ و بربادی اور ہر قسم کے نقصانات سے منع کیا ہے۔ مخالفین سے انتقام یا بدلہ لینے سے روکا ہے، غصے اورناراضگی پر قابو پانے کی تلقین کی ہے جس کی مثال آپ نے آپ پر کُوڑا کرکٹ پھینکنے والی عورت سے بدلہ نہ لیا ۔فتح مکہ کے بعد مسلمانوں کے دشمنوں سے انتقام نہ لیا حالانکہ قریش کے لوگوں نے آپﷺ اور آپﷺ کے پیروکاروں پر بے تحاشہ ظلم و ستم اور تشدد کیا تھا بلکہ دشمنوں کو ابو سفیان کا گھر پناہ گاہ بنا دیا کہ جو شخص ابو سفیان کے گھر پناہ لے گا اسے معاف کر دیا جائےگا۔ حضورﷺ نے اپنے سگے چچا حضرت امیر حمزہ کی لاش کی بے حرمتی کرنے والی ابو سفیان کی بیوی ہندہ کو نہ صرف معاف کیا بلکہ ان کے بیٹے امیر معاویہ کو کاتب وحی مقرر کر دیا۔ اہل طائف نے جو حضورﷺ کےساتھ تشدد آمیز سلوک کیا تھا اسے بھی معاف کر دیا گیا، صلح حدیبیہ میں مسلمانوں کی بجائے اہل قریش کی شرائط کو قبول کیا گیا، میثاق مدینہ میں یہودیوں، عیسائیوں اور ستاروں کی پُوجا کرنےوالوں کو برابری کے حقوق دیئے گئے جس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی ہے، مگر ہم مسلمانوں نے اپنے پیارے نبی کے قول و فعل کو اپنانے کی بجائے زمانہ جہالت پر عمل کرنے کی بجائے شدت پسندی اور سخت گیریت کو ترجیح دے رہے ہیں جس سے دین اسلام بدنام ہو رہا ہے جبکہ دین اسلام مکمل طور پر محبت، پیار اور امن کا پرچار کرتا ہے جس کے پیروکار اولیائے اکرام اور صوفیائے اکرام ہیں جنہوں نے مذہب اسلام کو پیار و محبت سے پھیلایا ہے جس سے برصغیر میں آج تک ساٹھ ستر کروڑ مسلمان ہو چکے ہیں، تاہم وہ نبیﷺ جو دنیا بھر کیلئے رحمت اللعالمین کہلائے گئے جو پوری انسانیت کیلئے رحمت بن کر آئے جن کا یوم پیدائش بڑے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے جن کا مسلمان آج پوری دنیا میں جشن میلاد منا رہی ہے، ایسے موقع پر فرانس کے صدر کے سرکاری طور پر گستاخانہ خاکے چسپاں کر کے آزادی اظہار اور دل آزاری کی تمام حدیں پار کر دی ہیں جس کا دنیا کا کوئی قانون اجازت نہیں دیتا ہے۔ اگر کسی مسلمان شخص نے ذاتی طور پر عالم غصے میں کسی خاکے بنانے والے شخص کا قتل کیا ہے تو یہ اس کا ذاتی فعل ہو سکتا ہے جس کو فرانسیسی قانون کے مطابق سزا دی جا سکتی ہے مگر اس کی ضد میں سرکاری طور پر گستاخانہ خاکے پیش کر کے فرانسیسی صدر نے دنیا بھر کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی سخت دل آزاری کی ہے جس کا کوئی مذہب اور قانون اجازت نہیں دیتا ہے جس کی وجہ سے مسلمانوں نے فرانس کی احتجاجاً مصنوعات اور اشیاءکی بھی خرید و فروخت کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کر دیا ہے جبکہ دس فیصد مسلمان فرانس میں آباد ہیں جن کو ان کے اپنے ہی ملک میں اجنبی بنایا جا رہا ہے جن کے سامنے مسلمانوں کے پیارے نبیﷺ کےخلاف گستاخانہ خاکے پیش کرکے کھلم کھلا دل آزاری کی جا رہی ہے۔
جبکہ فرانس میں انقلاب فرانس کے بارے میں کوئی شخص تحریر و تقریر نہیں کر سکتاہے یا پھر ہولو کاسٹ کے بارے میں لکھنا، بولنا قانوناً منع ہے لہٰذا گستاخانہ خاکے پیش کرنا بھیا یک شیطانی اقدام ہے جن سے امن کی بجائے شیطانیت پیدا ہوگی جس کیلئے شاید مغربی طاقتیں پھر افغان جہاد یا فساد جیسے فتور پیدا کر رہی ہیں یا پھر سرد جنگ کے خاتمے کے بعد کوئی نام نہاد دہشتگردی کی جنگ پیدا کرنے میں مصروف ہے تاکہ اپنی عوام کو کمیونزم کے بعد اسلام سے خوف زدہ رکھا جائے جو سفید فام نسل پرستوں کے ایجنڈے میں شامل ہے کہ رنداروں خصوصاً مسلمانوں کو اپنی نفرتوں اور حقارتوں کا نشانہ بنایا جائے لہٰذا مسلمانوں کو اپنے رسول مقبولﷺ کے اقوال اور افعال کو اپنانا ہوگا تاکہ جنگ و جدل کی بجائے محبت وپیار امن کا دامن تھاما جائے جس کا اسلام درس دیتا ہے۔ جس کے بارے میں ہمارے رب نے فرمایا کہ تم دوسروں کے جعلی خداﺅں کو بُرا بھلا مت کہو کہ کہیں وہ آپ کے حقیقی رب کو بُرا بھلا نہ کہہ پائیں۔ رسول مقبولﷺ نے فرمایا کہ دوسروں کے مذاہب کو بُرا بھلا مت کہو اور دوسروں کی عبادت گاہوں کو مسمار مت کرو کہ وہ آپ کی عبادت گاہوں کو نقصان پہنائیں جس کا مطلب دین اسلام کا پھیلاﺅ میں محبت، پیار اور امن شامل ہے جس کے بغیر اسلام پھیل نہیں سکتا ہے جس کاہمارے پیارے نبیﷺ نے حکم دیا ہے مگر بعض مسلمانوں نے محبت پیار اور امن کے راستے کو پس پُشت ڈال کر تشدد کا راستہ اختیار کر لیا ہے جس سے اپنا غم و غصہ تو ٹھنڈا کیا جا سکتا ہے مگر اسلام کی خدمت نہیں ہو سکتی ہے، خاص طور پر مغربی دنیا میں اقلیت آبادی کے ہونے سے مزید دین اسلام کے پھیلاﺅ کے راستے بند کرنے کے مترادف ہے۔ بہر حال وہ آزادی جس سے کثیر تعداد میں دوسروں کی دل آزاری پیدا ہو جس سے غم و غصے پیدا ہونے کے امکان ہوں ایسی شیطانیت سے اجتناب کرنا چاہئے جو کسی بھی لحاظ سے رائے اظہار کی بجائے فساد پیدا کرنے کے مترادف ہے جس پر اہل جمہور اور انسانی حقوق کے لوگوں کو سخت ایکشن لینا ہوگا تاکہ دنیا میں فساد کی بجائے امن پیدا ہو پائے جس کی دنیا کو سخت ضرورت ہے لہٰذا شیطانی گستاخانہ خاکوں کی بجائے لوگوں میں امن کا پرچار کیا جائے ایسے اقدام اور اعمال سے بچا جائے جس سے لوگوں میں اشتعال پیدا ہوجس کا ہر شخص حصہ تو نہیں بن سکتا ہے مگر دل و دماغ میں پُرزور مذمت کرتا نظر آئے گا یہی وجوہات ہیں کہ بعض اعمال اور اقدام اصلاحات یا مصالحت کہلاتی ہے جبکہ دوسروں کیلئے بے زاری کا باعث بن سکتی ہے جس کا درس جمہوریت دیتی ہے کہ تمام لوگوں بشمول اکثریت اور اقلیت کے حقوق کا خیال رکھا جائے جس کا حکم ہمارے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ نے ہمیں دیا ہے تاکہ معاشرے میں امن کا درجہ بلند ہو۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here