Ramzan Rana. Legal Analyst. M. A , LLB & LLM (USA
محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے اپنے وصیتی بیان میں امریکی مشہور صحافی مارک سیگل سے کہا تھا کہ اگر مجھے قتل کیا گیا تو میرے قاتل جنرل مشرف، جنرل گُل حمید، بریگیڈیئر اعجاز شاہ اور چودھری پرویز الٰہی ہونگے جس کے بارے میں مجھے مشرق وسطیٰ کی ایجنسیوں نے مطلع کیا ہے لہٰذا موت سے پہلے کسی مقتول کا بیان دنیا کے قانون میں شہادت میں اہم تصور سمجھا جاتا ہے جس کو ڈائننگ ڈیکلریشن کہا جاتا ہے جس پر آج تک کوئی بھی تحقیقات نہ ہو پائی، حالانکہ محترمہ بینظیر بھگٹو شہید کے قتل کے بعد فوری جائے واردات یا جائے وقوعہ کو کیمیکل پانی سے دھو دینا، حاضر ڈیوٹی پر فرائض دینے والے سرکاری افسران کے تبادلے یا پوسٹ مارٹم نہ ہونے دیا گیا ہے یا پھر قتل سے پہلے بینظیر بھٹوکو قتل کی دھمکیاں دی گئیں، جنرل مشرف نے محترمہ شہید کو حفاظتی گارڈز یا سیکیورٹی دینے سے انکار کر دیا، وغیرہ یہ سب شامل ہیں۔ جو بینظیر بھٹو کے قتل کے جواز نظر آرہے ہیں جس کے لئے تحقیقات یا تفتیش کرنا بہت آسان تھا کہ آج بھی کسی معمولی پولیس افسر کو نامزد کیا جائے تو وہ قاتل بتا دے گا۔ اسی طرح ماضی میں بانی¿ پاکستان قائداعظم محمد علی جناھ کی ہمشیرہ فاطمہ جناح کو پہلے بھارتی ایجنٹ اور غدار قرار دیا گیا پھر ایک دن ان کی گھر میں مسخ شدہ لاش ملی تھی جس کو گھر والوں کو دیکھنے کی اجازت بھی نہ دی گئی جس کے ذمہ دار جنرل ایوب خان ہیں جن کے اشارے اور حکم پر یہ سب کچھ ہوا ہے یا پھر پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کا منصوبہ بندی کے تحت قتل ہوا، یا پھر بانی¿ پاکستان قائداعظم محمد لعی جناح کو بنا میڈیکل سہولتوں اور ایمبولینس بند روڈ پر مار دیا گیا جبکہ قائد بانی¿ پاکستان اور پہلے گورنر جنرل تھے مگر انہیں میڈیکل سہولتوں سے محروم کر دیا گیا، گاڑی پنکچر ہونے پر متبادل گاڑی نہ دی گئی جو اپنی ہمشیرہ فاطمہ جناح کی گود میں وفات پا گئے، جیسا کہ جنرل مشرف نے اکبر بگٹی کو اعلانیہ قتل کیا تھا۔ آج پھر پاکستان کے تین مرتبہ کے وزیراعظم کی بیٹی مریم نواز کو خطرات لاحق ہو چکے ہیں جس کا اعادہ بینظیر بھٹو کے قاتل اعجاز شاہ نے اعلان کیا کہ دہشتگرد بلور خاندان کی طرح شریف خاندان کو بھی قتل کر دیں گے جو اقرار جرم ہے کہ وہی شخص آج قتل کی دھمکیاں دے رہا ہے جنہوں نے بطور آئی بی کے سربراہ بینظیر کا قتل کیا تھا۔ چونکہ بینظیر بھٹو اور بارہ مائی کے قاتلوں کا ٹولہ حکمران بنا ہوا ہے جنہوں نے کل بینظیر بھٹو اور جنرل مشرف کے مخالف وکیلوں کو قتل کیا تھا آج ان سے مریم نواز کو قتل کے خطرات لاحق ہو چکے ہیں تاہم مریم نواز ایک خاتون ہیں جنہوں نے موجودہ ظالموں اور جابروں کےساتھ ٹکر لے رکھی ہے جس سے پاکستان کے ایوانوں، دربانوں اور بلوانوں میں ہل چل مچ گئی ہے کہ بینظیر بھٹو کی طرح ایک اور عورت پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ اور ان کے حواریوں کیلئے خطرہ اقتدار بن چکی ہے مریم نواز آج اکیلی عورت میدان سیاسی جنگ میں لڑ رہی ہے جن کےساتھ ایک اور خاتون آصفہ بھٹو ابن بینظیر بھٹو اور نوازی زیڈ اے بھٹو سیاسی میدان میں کُود گئی ہیں جنہوں نے اپنے والد محترم اور آصف علی زرداری اور بھائی بلاول بھٹو کی علالت کی بدولت جلسہ¿ ملتان میں جا کر تقریر کی تاکہ پی ڈی ایم کی تحریک کو مضبوط کیا جائے جس سے ثابت ہو چکا ہے کہ جب نوازشریف کا پورا خاندان قید و بند میں ہوگا تو مریم نواز کی شکل میں خواتین پاکستانی آمروں، ظالموں اور جابروں کےخلاف جہاد کرینگی۔ اسی طرح آصفہ بھٹو نے بھی اپنے والد اور بھائی کی غیر حاضری کو پُر کیا ہے تاکہ کل کلاں اگر پوری قیادت کو عقوبت خانوں میں بند کیا جائےگا تو پاکستان کی خواتین ان بزدلوں اور ڈر پوکوں سے لڑیں گی جس کا وقت شاید اب آن پہنچا ہے کہ ملک کا ہر فرد جنگ لڑے گا چاہے وہ مرد، عورت، بوڑھا، بچہ کیوں نہ ہو جس کے بعد یہ مسلط نیم مارشلائی ٹولہ ملک چھوڑ کر بھاگ جائےگا یا پھر ترکی اور بنگلہ دیش کی طرح مستقل جیلوں کی زینت بنے گا۔
بہر کیف اہل پنجاب پر فرض عائد ہو چکا ہے کہ وہ پنجاب کی بیٹی مریم نواز کا ہر طرح کا دفاع کریں جس طرح بینظیر بھٹو کے قتل پر اہل سندھ نے رد عمل میں پُورا سندھ جلا کر راکھ میں بدل دیا تھا کہ پورے سندھ میں صرف ایک ہی نعرہ¿ بلند ہو رہا تھاکہ پاکستان نہ کھپے جس کو صدر آصف علی زرداری نے زائل کر کے ملک پر بہت بڑا احسان کیا تھا ورنہ پاکستان کا نقشہ بدل جاتا۔
لہٰذا اہل پنجاب کو اب دوسرے بڑے سانحہ کے برپا ہونے سے پہلے قاتلوں کو روکنا ہوگا تاکہ ملک میں کوئی دوسرا قتل نہ ہو پائے جس کیلئے پنجابیوں کو اپنی ہر دلعزیز بیٹی کا دفاع کرنا ہوگا جن کو پیشہ ور قاتلوں پر نظررکھنا ہوگا جو گزشتہ 70 سالوں سے سیاستدانوں کو قتل کرتے چلے آرہے ہیں جو بانی پاکستان، مادر ملت، قائد ملت، بھٹو، بینظیر بھٹو اور اکبر بگٹی کے قتل کر چکے ہیں لہٰذا ان کو مریم نواز کو قتل کرنے میں بھی کوئی شرم و حیاءآڑے نہیں آئے گی۔ بہرحال پاکستان شہیروں اور سیاستدانوں کی مقتل گاہ بن چکا ہے یہاں ہر روز صحافیوں، دانشوروں، ججوں اور سیاستدانوں کے قتل ہو رہے ہیں۔ برعکس پاکستان کے آئین شکنوں، حکومتوں پر قابضوں اور قاتلوں سے پوچھ گچھ نہیں ہو رہی ہے جس سے عوام میں انتشار اور خلفشار پھیل رہا ہے کہ وہ ملک یہاں مہنگائی، بیروزگاری، بھوک اور ننگ، غربت اور افلاس نے ڈیرے لگا رکھے ہیں وہ کسی بھی وقت خانہ¿ جنگی کی شکل اختیار ہو سکتی ہے۔ جس کیلئے ضروری ہے کہ عدالت کو سامنے آنا پڑے گا ورنہ ملک تتر بتر ہو جائے گا لہٰذا مساوی انصاف اور قانون نافذ کرنا ہوگا جس کیلئے اب عدالت نجات دہندہ ثابت ہو سکتی ہے۔
٭٭٭