”بیہودہ سیاسی کلچر اورعوام“

0
283
شبیر گُل

شبیر گُل

پاکستان ،انڈیا یا پھر امریکہ۔
سیاسی کلچر کو بدمعاشیہ اور دماغی طور پر مفلوج اشرافیہ کنٹرول کرتاہے جو بد مزاج اور فاشسٹ ذہنیت رکھتے ہیں۔ مودی ہویا عمران ،یا پھر ٹرمپ ،نفرت اور تعصب کی سیاست نے ان تینوں ملکوں کے سیاسی،اخلاقی اور رواداری کلچر کو تباہ کردیا ہے۔ انڈیا میں سکھ ،پاکستان میں پی ڈی ایم اور امریکہ میں وائٹ س±پرمیسٹ سڑکوں پر ہیں۔۔خیبر ہاسپیٹل میں آکسیجن نہ ملنے سے آٹھ لوگ اللہ کو پیارے ہوگئے۔قصور میں غربت سے تنگ ایک باپ نے پانچ بچوں کے ساتھ نہر میں چھلانگ لگادی۔شرم وحیاءسے عاری حکمران روائتی بیان بازی سے طفل تسلیاں اور ہر کمزوری کو ماضی کے حکمرانوں کے کھاتے میں ڈال رہے ہیں۔بڑی جماعتوں کے غیرت مند سیاستدانوں میں کوئی نہیں جو اس پر بات کرئے۔ڈیڑھ لاکھ کا جوتا اور ایک لاکھ کا سوٹ پہننے والی ووٹ کو عزت دو کی بات کرتی ہے ، کیا یہ غریب سے مذاق نہیں ہے۔ کروڑوں روپے کی سیکورٹی کے جھ±رمٹ میں خطاب کرنے والا بلاول گزشتہ چالیس سال سے سندھ پر حکمران ہے ، کیا غریب وہاں سانس لے رہا ہے۔ پیشہ ور سیاستدان مہنگی تعلیم،مہنگائی،بیروزگاری اور انصاف پر اسمبلیوں میں بات نہیں کرتے۔انہوں نے سیکورٹیز ،ٹی اے، ڈی اے اوراپنی تنخواہوں میں اضافہ کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔سیاسی پارٹیاں طاقت کے حصول کے لئے اپنی فورسیز بنا رہی ہیں۔ٹائیگرز فورس ،یوتھ فورس اور سیاسی پارٹیوں کی ملیشیا سیکورٹی اداروں کے لئے چیلنج ہے۔ پولیٹکل لیڈر شپ کا اخلاقی لیول گر چکا ہے۔ سول سروس ،عدالتی نظام اور محکمہ صحت کو تباہ کردیا گیا ہے۔ اداروں میں کوئی میرٹ نہیں۔جس کی وجہ سے بیوروکرسی منہ زور گھوڑا بن چکی ہے۔ جسے لگام کی ضرورت ہے۔ اقتدار میں چھوٹے لوگ چھوٹے مقاصد کے ساتھ اقتدار پر چھائے ہیں۔ن لیگ ،پی ٹی آئی ،پی پی پی کسی غریب کو پارٹی ٹکٹ نہیں دیتے۔ڈھائی سال گزشتہ حکمرانوں کی کمزوریوں کا ذکر سنتے سنتے کان پک گئے ہیں۔ بے حیا اور بے شرم اشرافیہ نے غریب کے چولہے ٹھنڈے کردئیے۔تینوں بڑی پارٹیاں آپس میں گھتم گ±تھا ہیں۔ کسی نے عوام کی غربت کم کرنے پر نہیں توجہ دی۔ نہ کوئی رفارمز لائے۔ہر الیکشن کے بعد احتجاجی جلسے، دھرنے اور ریلیاں مسائل کا حل نہیں۔ پارلیمنٹ ،جہاں مہنگائی کرنے والے بے حس جانور بیٹھے ہیں ،ان± پر ہاتھ کب اور کون ڈالے گا؟الیکشن کمیشن کو بااختیار اور امیدوار کی اہلیت کے قانون پر سختی سے عمل کروانے سے ہی معاشرہ بن سکتا ہے۔ وگرنہ ہر الیکشن کے بعد پینتیس،اور پچاس پنکچر لگتے رہیں گے۔ مجرم اقتدار میں آتے رہیں گے۔ پچیس لاکھ کی گھڑی پہن کر غریبوں کے حقوق کی بات کرنا انتہائی مضحکہ خیز ہے۔
مجرم ملک سے باہر بیٹھ کر عوام کو احتجاجی سیاست کی کال دے رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن مدارس کے طلبا کو استعمال کررہے ہیں جاہل وزرا اور مشیر گزشتہ ڈھائی سال میں صرف آگ پر تیل ڈال کر عمران کی نمک حلالی کر رہے ہیں۔ نظام فیل ہوچکاہے۔ ہر ایک کی تاریخ سیاہ کارناموں سے بھری پڑی ہے۔ ن لیگ ماڈل ٹاو¿ن میں بندے مار دیتی ہے۔ پیپلز پارٹی ریمنڈ ڈیوس کو بھگا دیتی ہے۔ پی ٹی آئی سانحہ ساہیوال میں مجرموں کو کٹہرے میں نہیں لاتی۔ایم کیو ایم ہزاروں بندے مار کر اسمبلیوں میں بیٹھی ہے۔ مجرم ، چور، ڈاکو اور عوام دشمن اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں۔یہ سب مجرم وارداتیے اور اندر سے ایک ہیں۔کیا اسمبلیوں میں بیٹھے درندوں نے عوام کے لئے سستی تعلیم پر بات کی۔ چینی ، آٹا، گیس، بجلی سستی کرنے پر بات کی۔ الیکشن ریفارمز پر بات کی ؟ کوئی غریب آدمی الیکشن نہیں لڑ سکتا۔ فیوڈل، سرمایہ دار، انڈسٹریلسٹ ، مل مالکان ، مجرم اور قاتل اسمبلیوں میں موجود ہوں تو لوگ بھی خودکشیاں کرتے رہیں گے، مجرم دندناتے رہیں گے ۔ قوم آپ نے گھبرانا نہیں کی لوری س±نتے رہیں گے۔ حج ڈیڑھ لاکھ مہنگا ہوگیا۔ کرتارپور پر اربوں لگا دیا۔ لنگر خانے کھولنے کی بجائے عوام کیلئے روزگار کے مواقع پیدا کئے جائیں۔ پاکستانی جمہوریت ماں کا جہیز اور باپ کی وراثت کا نام ہے۔ جہاں پارٹی پالیٹکس اور لیڈر شپ ،ماں سے بیٹی اور باپ سے بیٹے کو منتقل ہورہی ہے۔ پرانے اور سینئر لیڈر بلاول اور مریم کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے ہیں۔
پاکستانی پالیٹکس گالم گلوچ کے سوا کچھ نہیں، آزاد صحافت نے قوم کو پریشان کر رکھا ہے، سوشل میڈیا کی ٹیمیں ایک دوسرے کو متعون کرنے کے سوا کچھ نہیں۔چند بھارت نواز صحافی پاکستانی اداروں کے خلاف دن رات بول اور لکھ رہے ہیں۔کوئی کوڈ آف کنڈکٹ نہیں۔
پاکستان جسے اسلام کی تجربہ گاہ قرار دیا گیا تھا۔ا±س تجربہ گاہ میں ختم نبوت پر حملہ ہوتا ہے۔ فحاشی کو ٹی وی چینلز پر پروموٹ کیا جاتا ہے۔ جس مقصد کے لئے لاکھوں جانیں قربان کی گئیں۔ ستر سال گزرنے کے بعد ہم وہیں پر کھڑے ہیں۔تینوں بڑی پارٹیوں نے ملکی معیشت اورغربت کے خاتمہ پر کوئی کام نہیں کیا۔ سکول مالکان کی فیسوں میں بے تحاشہ اضافہ کے خلاف س±پریم کورٹ کی رولنگ کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا۔ کیا کسی ممبر نے اسمبلی میں آواز اُٹھائی ؟پاکستانیو! خدارا ہوش کرو۔ نان، کباب اور بریانی کے چکر سے باہر نکل آو¿۔ ان سیاسی گدہوں کو کوڑے دانوں میں ڈالنے کا انتظام کرو۔ پاکستان میں غربت کا خاتمہ، قانون کی حکمرانی ، انصاف کا بول بالا، صرف اسلامی نظام حکومت میں ہے۔ ذانی ، بدکار، مجرم ، قاتل ، وڈیرے، حکمران ہوں تو فلاحی اور ریاست مدینہ کے خواب غریب کا مقدر ہوا کرتے ہیں۔
جرنیل اور اسٹیبلشمنٹ مغرب طرز حکومت ، منافقانہ پالیسیوں اور فیوڈل سسٹم کی پروردہ ہے۔ اس کو مجرم، بے دین، بے حس اور عوام ک±ش حکمران ہی سوٹ کرتے ہیں۔ جوان کے الے تللے اور عیاشیوں پر آنکھیں بند رکھیں۔ پاکستان اس وقت جمود کا شکار ہے۔ عمران خان اپوزیشن سے بات نہیں کرنا چاہتے۔ مریم نواز سولو فلائیٹ کی قائل ہیںجس پر شہباز شریف اور زرداری کو تخفظات ہیں۔
مریم استعفوں کی بات کرتی ہیں۔کہتی ہیں کہ 13 دسمبر کو آر یا پار ہوگا۔پیپلز پارٹی استعفیٰ دینا نہیں چاہتی۔ عمران خان سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ پی ڈی ایم کے پاس عوام کو ریلیف کا کوئی پروگرام نہیں۔پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں نے گزشتہ تیس سال اقتدار کے مزے لوٹے ، عوام کو کچھ نہیں دیا۔اب کونسی دودھ اور شہد کی نہریں بہا دینگے۔
تبدیلی سرکار نے بھی عوام کو مایوس کیا ہے۔ ہسپتالوں میں ادویات نہیں ،غریب کے لئے انصاف نہیں۔لنگر خانوں کے باہر لوگوں کو کھڑا کردیا گیا ہے۔ حکومتی رٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔ جس غلیظ زبان کا رواج عمران خان اور یوتھیوں نے متعارف کرایا تھا۔ آج ویسی ہی غلیظ زبان مولانا فضل الرحمن اور ن لیگ کی نائب صدر مریم نواز استعمال کررہی ہیں۔ سیاسی بلوغت کہیں نظر نہیں آرہی۔شائستگی اور اخلاقیات جو ہمارے سیاسی اکابرین کا ط±رہ امتیاز تھا، وہ آج بدمعاشیہ کے متعفن کلچر میں تبدیل ہوچکا ہے۔
مولانامفتی محمود ،پروفیسر غفور احمد، نوابزادہ نصراللہ ،چوہدری ظہور الٰہی، قاضی حسین احمد،شیر باز مزاری جیسے معتدل رہنماو¿ں کی جگہ اور سیاسی افق پر مولا جٹ اور نوری نت جیسے کرداروں ،نواز شریف،فضل الرحمن،عمران خان ،مریم نواز،بلاول زرداری،رانا ثناءاللہ، پرویز رشید،فیصل واڈا، فردوس عاشق،اچکزئی جیسے بداخلاق اور بے ضمیر اشرافیہ نے لے لی ہے ، جن کی تلخ زبان اور گندی سیاست نے نفرت اور تعصب کو رواج دیا جس سے عدم برداشت بڑھ گئی ہے جس سے ٹکراو¿ اور تصادم کا ماحول پیدا کر دیا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی بار بار مداخلت نے اسکی عزت اور وقار کو مجرو ح کیا ہے۔ پولیس اسٹیشن اور کورٹ کچہری سے لیکر اقتدار کے ایوانوں تک عوام کا گوشت نوچنے والے اژدھے بیٹھے ہیں۔
آج ملک کو اس سیاسی گند سے چھٹکارا چاہئے۔اخلاقی رواداری،اخوت و محبت چاہئے۔ خطے میں بڑھتے ہوئے خطرات کا ادراک کرنے والی نظریاتی قیادت چاہئے جو ملک میں نفرت کی سیاست کا خاتمہ کرکے،اخلاقی رواداری کو عام کرے ،انصاف کو عام کرے،غریب کی پشتیبان ہو۔قارئین! وہ ایماندار،باکردار، نظریاتی اور غریب پرور قیادت صرف جماعت اسلامی کے پاس ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here