علم فلکیات!!!

0
121
سید کاظم رضوی
سید کاظم رضوی

محترم قارئین السلام و علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ امید ہے آپ خیریت سے ہونگے گزشتہ چند ہفتوں میں ہونے والا چاند گرہن اور پھر سورج گرہن اپنے مکمل اثرات کے ساتھ دنیا میں تیزی سے وقت پذیر ہونے واقعات پر انتشار دماغی اور خوف کی سائے میں تیزی سے ظاہر ہورہے ہیں اس کا اثر جہاں سماجی و بین الاقوامی معاملات پر پڑ رہا ہے وہیں ملکی و غیر ملکی سیاست اور اس کے نتائج بھی سامنے آرہے ہیں دنیا میں جہاں ایسے لوگ بستے ہیں جو تعداد میں بہت زیادہ ہیں کہ گرھن ایک قدرتی عمل ہے اور اس کا حقیقی زندگی اور اس پر ہونے والی تبدیلیوں اور اثرات سے کوئی تعلق نہیں ہے !۔۔چلئیے ایک طرف تو یہ لوگ ہیں جبکہ دوسری طرف اس کو سائنس کے پیمانوں پر پرکھنے والے لوگ جو ان مخصوص زاویوں اور قائم شدھ نظرات جو ستاروں کے درمیان ہوئیں ان پر نظر رکھ کر نتائج اخذ کررہے ہیں کہنے والا کہے گا جب ایسا ہوگیا اور گردش سیارگان سے گرہن لگا پھر ختم ہوگیا تو یہ اب اس لکیر کو پیٹنے کا فائدہ بھلا جب سانپ گزر جائے اور نشان رہ جائے تو لکیر پیٹ کر کیا حاصل ہوگا !!؟؟
آپ سب نے ایک لفظ سنا± ہوگا ھمذاد یہ کیا ہے جو علمی قدیم کتب میں مواد ملا اس کی رو سے اس کی تعریف انسان کے سائے کی ہے جو ہر انسان کے ساتھ ہوتا ہے لیکن سائے کیلیے شرط ہے کہ روشنی ہو اب وہ مصنوعی ہو یا سورج کی کیونکہ سورج ایک معیاری روشنی کا زریعہ ہے اس وجہ سے اس کو ہی بنیاد بنالیتے ہیں کبھی آپ نے سوچا کیوں لوگوں نے کتب میں لکھا کہ انکا ہمزاد کچھ مخصوص دعاﺅں اور ریاضتوں سے حاضر ہوگیا مشرقی علوم مخفی میں یہ تصور ہمزاد ملے گا کچھ مغربی علماءبھی اس کے حامی نظر آئے لیکن زیادہ تر مغرب میں ڈریکولا کا کردار ملے گا جو سورج کی روشنی سے جل جاتا ہے اور انسانی خون اس کی غذا ہوتی ہے یہ اشارے آپ کو کسی خاص منزل کی طرف لے جانے اور سوچنے کی دعوت دینے کیلیے لکھے ہیں میں بزات خود ایک محقق ہوں اس سے زیادہ کچھ نہیں نہ میرے پاس ہمزاد ہے نہ جنات ہے نہ موکل نہ میں کوءبابا شابا ٹائپ آدمی ہوں بلکہ میں ایک حد تک ان کرداروں سے نالاں اور ان کا مخالف ہوں اس کی بہت سی وجوہات ہیں جو آپ سے پھر کبھی بیان کروں گا۔خیر انکی منطقیں اور باتیں اپنی جگہ لیکن کوءعلمی و عقلی دلیل ہو تو بات کی جاسکتی ہے یا بحث جس سے کوءاچھا نتیجہ نکل آئے لیکن کوءکیا کرے ان الزامات کا جو کہتے ہیں یہ تو اب غیب کا حال بتانے لگ گئیے !!؟؟ اف توبہ ہے۔آج دن ہے جب یہ دن ختم ہوگا تو رات ہوجائیگی لیکن پھر رات بھی ڈھل جائیگی اور اسکا اختتام ایک اور صبح اور دن پر ہوگا لیکن سمجھنے والے کو یہ معلوم نہیں کہ وہ دن اس کی تاریخ بدل جائیگی اور رفتار اس کو اس کے معاوضے سے قریب کردیگی یعنی ایک دن اس کی نوکری کی قیمت یا تنخواہ سے قریب ہوگیا اس کی زندگی کا ایک دن کم ہوگیا وہ قبر میں جانے کیلئے زیادہ قریب ہوگیا ایک مریض جو قریب المرگ تھا ڈاکٹر نے خون کا تجزیہ کیا جسمانی حالت دیکھی جسم میں پھیلتے زہر اور کمزور مدافعتی نظام کو دیکھا تو بولا کہ مریض دو تین روز سے ایک ہفتے اور زندہ رہ سکتا ہے اسکا تجربہ قابلیت مشاھدہ اس کو بتا رہا ہے لیکن اس کے انتقال کی گھڑی اور مدت اس کا حکم اللہ کا ہے یہ غیب نہیں بلکہ اللہ کے عطائ کردہ علم کے استعمال سے ممکن ہوا جب آج میں نوکری کا وقت ختم ہونے پر گھر جاﺅنگا تو مجھے ریڈیو پر ایک انگریز یہ بتا رہا ہوگا بدھ کے روز کس وقت برف پڑنی شروع ہوگی کب تک پڑے گی ممکنہ مقدار اس کا قسم کہ وہ نرم گالوں کی طرح پڑے گی یا شیشے کی کرچیوں کی طرح ہوگی اب وہ انسان ریڈار کو پڑھ کر برفانی طوفان کا رخ اور ہوا کا دباﺅ دیکھ کر یہ سب بتا رہا ہے جو دو دن بعد ہوگا تو اب اس میں حیرت کی کیا بات یہ غیب نہیں ہے بلکہ وہ سائنسی علمی صلاحیت ہے جس کا فائدہ انسان اللہ کے عطاکردہ علم کو استعمال کرکے اٹھا رہا ہے وہ یہ پیش گوئیاں کرکے آنے والے طوفان سے بچنے کیلیے ایندھن کا زخیرہ ( کاروں میں اور گھروں میں ) خوراک کا زخیرہ ایمرجنسی رضاکاروں کا انتظام غذاءذخیرہ کا گھروں میں انتظام تاکہ وقت پر پریشانی نہ ہو ہواءسفر اور روڈ کے سفر میں تبدیلی اور تاخیر کیلئے تیاری ہونا یہ سب اس موسمی پیش گوءکی وجہ سے ممکن ہوا وگرنہ انسان اپنی فیملی کے ساتھ پریشان ہوتا اور اس کو موسمی شدت بیمار کردیتی یا حادثہ کا شکار ہوجاتا بس جو اس نقطے کو سمجھ گیا تو وہ آسانی سے ان سائنسی علوم ان کے تقابل اور موازنے اور ان کے آپس میں گہرے تعلق کو اپنا مطالعہ قرار دیتا ہے اور اس کا فائدہ خود بھی اٹھاتا ہے اور اپنے اطراف کے لوگوں کو بھی بہرہ ور کرتا ہے۔
ہمارا موضوع زائچہ چل رہا تھا جس کو آسان زبان میں ستاروں کے حساب کی کتاب کہا جاتا ہے زائچہ اس نقشے کو کہتے ہیں جس سے آسمان پر کواکب کی پوزیشن کسی خاص سال ، ماہ ، دن اور وقت کی درج کی جائے اگر دو باتیں وقت اور جگہ معلوم نہ ہو زائچہ نہیں بن سکتا !!اپنی ان بے ربط باتوں اور مختلف زاویوں کی سوچ کے ساتھ اگلے ہفتے تک کی رخصت یہیں سے شروع کریں گے جہاں ختم کیا ہے جب تک آپ سوچئیے کوءسوال ہو تو ای میل لکھ سکتے ہیں۔
والسلام
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here