تیس اکتوبر دو ہزار گیارہ کا جلسہ بھی دیکھا اور تیرہ دسمبر دو ہزار بیس کا بھی دنوں جلسے دیکھ کر مزہ آیا، دونوں جلسوں میں عوام اپنے حقوق کے لیے باہر نکلی دونوں جلسوں میں حکومت نے کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی کسی کو نہیں روکا دونوں جلسوں پر مالداروں کا کافی مال خرچ ہوا، دونوں جلسے حکومت کی مخالفت میں کئے گئے دونوں جلسے مینار پاکستان پر ایک ہی مقام اور تقریباً ایک ہی وقت پر شروع اور اختتام پذیر ہو دونوں جلسوں کی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے خوب کورج کی دونوں جلسوں پر اینکر صاحبان نے اپنی اپنی پسند کے مقررین کو سراہا ،دونوں جلسوں پر مخالفین کا ایک سا رد عمل دیکھنے میں آیا ،دونوں جلسوں میں حکومت وقت پر تنقید کی گئی دونوں جلسوں کو عوام کی ایک بڑی تعداد دیکھنے اور سننے آئی دونوں جلسوں پر پارٹی ترانے بجتے رہے ،دونوں جلسوں کو ڈی جے بٹ کی خدمات حاصل تھیں دونوں جلسوں پر تھریٹ الرٹ جاری کئے گئے پر دونوں جلسوں میں کوئی ناخوشگوار واقع نہیں ہوا ،دونوں جلسوں میں پنجاب بھر سے لوگ آ ئے ، دونوں جلسوں سے لوگ واپسی پر کرسیاں اٹھا کر ساتھ لے گئے دونوں جلسوں پر لاہور میں ٹریفک جام رہا دونوں جلسوں میں پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی، دونوں جلسوں پر کھانے پینے کا انتظام کیا گیا تھا، دونوں جلسوں میں بڑی سکرین پر عوام کو ڈاکومینٹری دکھائی گئی ،دونوں جلسوں کے لیے کئی دن پہلے سے تیاریاں کی گئی تھیں ،دونوں جلسوں میں لوگوں کا جوش اور ولولہ دیدنی تھا ،دونوں جلسوں میں لاکھوں کا نہیں تو ہزاروں کا مجمع جمع ہوا پر ایک جلسے میں ملکی وقار کر بلند کرنے کی بات ہوئی لوگوں کی عزت نفس کی بات ہوئی اور دوسرے میں چور لٹیرے نیب یافتہ سزا یافتہ خود یا ان کے بچے موروثی اور غلیظ سیاست میں لتھڑے ہولوٹی ہوئی دولت کو بچانے کی خاطر گلا پھاڑ پھاڑ کر شور مچاتے رہے ایک جلسے میں معاشرے اور حکومت میں پھیلی کرپشن کو ختم کرنے کا عہد کیا گیا تو دوسرے جلسے میں تیس سال سے سٹیٹس کو کو بچانے کے لیے لوگ سٹیج پر چڑھے بیٹھے تھے ایک جلسے میں بولنے والے مقررین کی دیانتدارانہ ساکھ تھی تو دوسرے جلسے میں موٹر سائکل سے پجارو اور گھر سے محلات کے مالک بننے والوں کا گٹھ جوڑ تھا ایک جلسے میں اپنی مرضی اور اپنے خرچے پر آئے نوجوانوں کا چارجڈ کراو¿ڈ تھا تو دوسرے جلسے میں گاڑیوں میں بھر بھرکر لائے گئے کرائے کے لوگ کہ جن کو صحیح طرح سے دیہاڑی بھی نہیں ملی تھی ایک جلسے کے پیچھے تیرہ سالہ مسلسل جدوجہد کی عظیم مثال تھی اور دوسرے جلسے میں حادثاتی یا موروثی سیاست والے راجہ گدھ تاک میں بیٹھے تھے ،ایک جلسے میں قومی ہیرو خطاب کر رہا تھا تو دوسرے جلسے میں ملک سے جھوٹ بول کر بھاگا ہوا مفرور ایک جلسے میں مستقبل کا وزیر اعظم بول رہا تھا تو دوسرے جلسے میں تین دفعہ وزارت عظمیٰ کے عہدے سے کرپشن کے چارجز کی بنا پر برطرف کیا گیا سابقہ وزیر اعظم ،پہلے جلسے میں عمران خان اور دوسرے جلسے میں سزا یافتہ نواز شریف۔۔رہے نام اللہ کا۔