انقلابیوں کی شورش سے کیپٹل ہِل دہل گیا!!!

0
167
حیدر علی
حیدر علی

حیدر علی

امریکی ایوان نمائندگان کی کانفرنس جو سال 2020 ءکے صدارتی انتخاب کے نتائج کی سرٹیفیکیشن کیلئے منعقد ہورہی تھی، اُسکے اراکین کے علم میں یہ بات تو ضرورتھی کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حمایتی کیپٹل ہل کی جانب مارچ کررہے ہیں لیکن اُنہیں یہ نہ پتا تھا کہ اُن کی تعداد اتنی زیادہ ہوگی اور وہ اتنی زیادہ شر پسندیدگی کا مظاہرہ کرینگے، امریکی عوام تو یہ جانتی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے حمایتی بذات خود ایک مسلح فوج ہے اور اُس کی تربیت ایک عام فوج سے کہیں زیادہ منظم طریقے سے کی جاتی ہے اور اگر اُنہیں کسی ملک میں جارحانہ کاروائی کیلئے بھیجا جائے تو شاید اُن کی اتنی زیادہ ہتک آمیز شکست نہ ہو جتنی کہ ریگولر سرکاری فوج کی ہوتی ہے کہ کبھی اُسکے سپاہی محاذ پر جانے سے قبل ہی اغوا ہوجاتے ہیں، اور کبھی محاذ پر پہنچنے کے فورا”بعد گھر واپس جانے کیلئے رونا دھونا شروع کر دیتے ہیںیہی وجہ ہے کہ جب جٹوں کے گروہ کے اراکین کیپٹل ہل کی عمارت کی چھت پر چڑھ کر اُسے بنگ بنگ کرکے پیٹنا شروع کر دیا، دروازے اور کھڑکیوں کو توڑ کر چیمبر میں داخل ہونے کی کوشش شروع کردی تو اراکین نمائندگان کی ہوا بند ہوکر رہ گئی ، وہ اپنے ڈیسک کے نیچے چھپنے لگے، بعض رینگتے ہوئے باہر نکلنے کی کوشش کرنے لگے بعض سے ممکن نہ ہوسکا تو وہ فرش پر ہی چِت ہوکر لیٹ گئے، چیمبر کے باہر کا سماں خوفناک اور پُراسرار تھا۔ گولیاں دونوں جانب سے چل رہی تھیں، لاشیں گر رہی تھیں، ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے رامبو کی فلم کے منظر کی دوبارہ عکس بندی کی جارہی ہو بہرکیف جب بندے کا¶نٹ کرنے کا وقت آیا تو پتا چلا کہ یو ایس ائیر فورس کی ایک سابقہ ویٹرن جو شکل سے جوان ہی معلوم ہورہی تھی نصف درجن افراد کے ساتھ موت کے آغوش میں سوگئی ،لائن آف ڈیوٹی میں نیوجرسی سے تعلق رکھنے والا ایک پولیس آفیسر بھی ہلاک ہوگیا۔
بیشتر امریکی اِن ساری ہنگامہ آرائیوں کی ذمہ داری صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سر تھونپ رہے ہیں بعض سینیٹرز اور کانگریس مین یہ مطالبہ بھی کر رہے ہیں کہ 20 جنوری سے قبل ہی اُنہیں پچیسویں ترمیم یا مواخذے کی کاروائی کے ذریعہ برطرف کر دیا جائے لیکن اِن دونوں کاروائیوں کی نتائج میںامریکی نائب صدر مائیک پینس ہی صدر کے عہدے پر فائز ہونے کے اہل ہونگے لہٰذا شکل تو بدل جائیگی لیکن کرتوت ایک جیسا ہی ہوگا،صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ذہنی کیفیت کے تجزیہ کیلئے متعدد ماہرین سرگرداں ہوگئے ہیں، گذشتہ بدھ کے دِن امریکا کے دارلخلافہ واشنگٹن پر اُن کے حمایتیوں کا مظاہر ہ بے شمار سوالوں کو اُجاگرکرتا ہے ، اُن میں اول ترین یہ ہے کہ آیا وہ مظاہرہ صرف شکست خوردہ عناصروں کے دِل کی بھڑاس نکالنے کا ایک وسیلہ تھا یا امریکا میں ایک منظم انقلاب لانے کا پیش خیمہ، ماہرین کا کہنا ہے کہ جب کوئی تحریک اپنے مقصد کے حصول کیلئے فوجی دستے کی حمایت حاصل کر لیتی ہے یا اُس میں مسلح گروہ شامل ہوجاتے ہیں تو وہ انقلاب کی محرک بن جاتی ہے،2016ءمیں ترکی میں انقلاب لانے کی ناکامیاب مہم اِس کی بہترین مثال ہے بلاشبہ مذکورہ مظاہرے کے شرکا میں چند افراد مسلح تھے لیکن اُن کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی تاہم مظاہرے کے رہنما¶ں کا طرز عمل اِس امر کی غمازی تھا کہ جیسے وہ کسی فوجی مشن پر جارہے ہوں، اِس بات کو اِس وجہ سے بھی تقویت پہنچتی ہے کہ کانگریس کے اجلاس میں ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے آٹھ سینیٹرز نے انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے سے یکسر انکار کردیا جس میں میسوری کے جوش ہا¶لے بھی شامل ہیںجنہیں مظاہرین کو اپنی مٹھی بند کرکے ہٹلر کی طرح سیلوٹ دیتے ہوئے دیکھا گیاتھا۔ وہ مظاہرین بعد ازاں یو ایس کیپٹل پر حملہ آور ہوئے تھے تاہم دوسرے ماہرین کی رائے میں انقلاب اور سیاسی تحریک ایک دوسرے سے بہت زیادہ جدا نہیں ہیں اور وقتا”فوقتا” و ہ ایک دوسرے میں ضم ہوجاتی ہیں لیکن سب سے اہم سوال یہ ابھر رہا ہے کہ انتہا پسند سفید فام کا یو ایس کیپٹل پر حملہ آیا اپنی تاریخ کا دوسرا حملہ تھا یا اِس کا جھٹکا مستقبل کیلئے نقش پا بن سکتا ہے جبکہ ماضی میں صرف ایک مرتبہ برطانیہ کی فوج بھی 1812 ءمیں جنگ کے دوران یو ایس کیپٹل پر حملہ آور ہوئی تھی۔
ریپبلکن پارٹی کے رہنما بھی اپنی پارٹی کے دفاع کیلئے ترویدوں کی فہرست لگا دی ہے بعض رہنما یہ کہہ رہے ہیں کہ دہشت گرد تنظیم انٹیفا جس پر امریکی حکومت پابندی عائد کر چکی ہے ، اُسکے ممبران دو بسیں بھر کے واشنگٹن آئے تھے اور اُنہوں ہی نے تخریبی کارروائی میں زور شور سے حصہ لیا تھاتاہم انٹیفا کے ترجمان نے ترویدی بیان میں کہا کہ اُن کی تنظیم عبداﷲ کی شادی میں بیگانہ دیوانہ بننے کی عادی نہیں ہے،امریکی میڈیا جو یہودی نواز حلقہ کے ماتحت پروان چڑھتا رہا ہے ،ماضی کی طرح اب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف کوے کی طرح کائیں کائیں کرنے میں کوئی فرد گذاشت نہیں کر رہا ہے،نصف صدی کے زائد عرصہ تک دنیا جہاں کے مسلمان اِس کا ہدف بنتے رہے ہیں، فلسطینی مسلمانوں کے بعد لبنانی ، عراقی اور پھر ایک ہی یلغار میں افغانستان، شام اور لیبیا اِس کے مذہبی تعصب ، معاشی مفادات اور سماجی جنگ کا نشانہ بنے ہیں لیکن سوال اب یہ لوگوں کے ذہن کو مضمحل کر رہا ہے کہ میڈیا کے اِس گروپ کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے کس وجہ سے دشمنی ہے؟دوسری حقیقت یہ بھی ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکی فوج کی یلغار کسی غیر ملک میں نہیں ہوئی ہے اور اُن کا غیر ممالک بشمول افغانستان ، شام اور صومالیہ سے امریکی فوجیوں کے انخلا کا عمل آخری مراحل میں ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here