اسلام آباد:
قومی سلامتی کے امریکی مشیر جیک سیلوان اوروزیرخارجہ انٹونی بلنکن کے بیانات پرتبصرہ کرتے ہوئے اس عہدیدارکاکہنا تھا کہ امریکہ نے اس ضمن میں پاکستان سے ابھی کوئی رابطہ نہیں کیا،جب چیزیں واضح ہونگی تو اس پر بات کی جا سکتی ہے۔نئی امریکی انتظامیہ ابھی ملے جلے اشارے دے رہی ہے۔
معاہدے کا ازسرنوجائزہ لینے کا کہ رہے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی معاہدے کے روح رواں زلمے خلیل زاد کوبھی چیف مذاکرات کار کے عہدے پر برقرار رکھا ہوا ہے ۔زلمے خلیل زاد کی مدت اس سال مئی میں ختم ہوگی ،یہی افغانستان سے امریکی فوجوں کی واپسی کی مدت ہے ۔اگرنئی امریکی حکومت اس معاہدے میں کسی ردوبدل کی کوشش کرتی ہے تو اس کے پاس کے متبادل بھی بہت محدود ہیں۔اب ہم دیکھیں گے کہ یہ نظرثانی صرف نمائشی ہوتی ہے یا کچھ اور سامنے آتا ہے۔
واضح رہے قومی سلامتی کے امریکی مشیرجیک سیلوان نے اپنے افغان ہم منصب کے ساتھ جمعہ کے روز فون پر رابطہ کرکے دوحہ امن معاہد ے پر نظر ثانی کا عندیہ دیا تھا۔دوسری طرف وزیرخارجہ انٹونی بلنکن نے سینٹ کمیٹی کے سامنے بیان دیا تھا کہ وہ اس معاہدے کا عمیق جائزہ لیں گے۔ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکہ اس جنگ کو لامحدودمدت تک جاری نہیں رکھ سکتا۔پاکستان نے دوحہ امن معاہدہ میں سہولت کارکا کردار ادا کیا تھا۔پاکستانی عہدیدارکے مطابق ہم اس ضمن میں امریکی ارادوں کے واضح ہونے کا انتظار کررہے ہیں۔
پاکستان کا خیال ہے کہ اس معاہدے کے بعد دونوں فریقوں کیلئے افغانستان میں بدامنی کے خاتمے کا تاریخی اورنادر موقع ہے۔پاکستان اورامریکہ کے درمیان باقی چینلز پر تو رابطے ہیں لیکن اس ایشو پر ابھی کوئی رابطہ نہیں ہوا ۔پاکستان چاہے گا کہ امریکہ اس معاہدے پر کابند رہ کرامن کوششوں کو جاری رکھے۔