ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی
انقلاب اسلامی کو بپا ہوئے 42 سال گزر گئے ہیں۔ جب انقلاب کامیاب ہوا تو میں گورنمنٹ کالج جوہر آباد میں بی اے اور جامعہ دارلعلوم الجعفریہ کربلا خوشاب میں فاضل عربی کا طالبعلم تھا۔ قبل از انقلاب ہم جلوس نکالتے اور ہمارے بینرز پر یہ لکھا ہوتا ایران ہے لہو لہو اسلام کیلئے ، ہم جان دینگے نائب امام کیلئے۔ اس سفینہ انقلاب پر قدم رکھے ہوئے مجھے 34 سال ہوگئے ہیں اس لئے کہ 1987 ہی میں ہم جلوس نکالنے لگ گئے تھے۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے ان 34 سالوں میں اپنا خط انقلاب اور ولایت فقیہ تبدیل نہیں کیا جیسا کہ چھ دہا ئیوں سے خط تشیع و ولایت علی نہیں بدلا۔ ہمارے معاصر قلابازیاں کھاتے رہے مگر ہم معرب نہ بنے،
الحمد للہ رب العالمین و لہ الشکر علی ہذہ النعمہ
الہم ثبت اقدامنا علی ولایت محمد وآل محمد
انقلاب اسلامی نے ایک طرف ڈھائی ہزار سالہ شہنشاہیت کے تخت و تاج تاراج کر دیئے۔دوسری طرف فرعون دہر کو اہرام مصرکا ہمسایہ بنا دیا۔دنیا کی ساری طاقتوں کا پروردہ ایک بوریا نشین مجتہد سید زاے کے سامنے گھٹنے ٹیک گیا۔ اسے پناہ بھی ملی تو فرعون کے شہر مصر میں۔ایک ایک دن میں پانچ پانچ ہزار شیعیان علی کا قاتل دم دبا کر بھاگنے پر مجبور ہو گیا۔نہ دولت اس کے کام آ سکی ، نہ ہی رعب و دبدبہ، نہ ہی ارتش و سپاہ، نہ ہی اندرونی بیرونی طاقتیں۔ اللہ اکبر، خمینی رہبر اور خمینی امام کے فلگ شگاف نعروں ، خون شہداءکی مہک، عمامے اور حجاب کی سربلندی ، غیرت و حمیت کے ماحول، علماءو عوام کی وحدت،بیوگان و یتامی کے نالوں، تعلیم و تربیت کی ضوفشانیوں ، رہنماﺅں وکارکنوں کے احساس ذمہ داری اور رہبر و قوم کے اخلاص نے پہلوی خاندان کی آریہ مہر طرز پر بنائی گئی، اندر سے کھوکھلی دیوار اقتدار کو ایسا دھکا دیا کہ اس کے انہدام سے فقط شاہی خاندان ہی قصہ پارینہ نہیں بنا بلکہ ذلت و رسوائی کی تہوں میں تہس نہس ہو کر رہ گیا۔جس قائد انقلاب کو ترکی کے راستے اکیلا ملک بدر کیا گیا تھا۔وہ مہر آباد کے ائیر پورٹ پر شاہ کی بچی کچھی حکومت کے آثار کے باوجود شجاعت حیدری سے سبق لیتے ہوئے بھرا جہاز لے کر فاتحانہ انداز میں اتر گیا۔اس قائد انقلاب کے ساتھیوں کے پاس نہ اقتدار تھا نہ اسلحہ، نہ دولت تھی نہ وسائل ،نہ نظام مواصلات تھا اور نہ ہی فارن کی سپورٹ ، مگر اس نے ولایت علی سے سرشار ہو کر اور عزاداری حسین سے تیار ہو کر اپنے آہنی ارادوں ، عقیدوں کی پختگی ، اخلاص عمل اور اتباع علماءکے ذریعے کٹھ پتلی وزیر اعظم شاہ پور بختیار کو دم دبا کر بھاگنے پر مجبور کر دیا۔بوریا نشین مجتہد اعظم نے نہ شاہی محل میں قیام کیا ، نہ وزیر اعظم ہاوس میں ، نہ خاندان پروری کی ،نہ دولت جمع کی ،نہ ہی کوئی حکومتی عہدہ لیا، نہ ہی اپنے خاندان کو کوئی عہدہ دیا۔ابتدا میں ایک اسکول میں اور اس کے بعد تادم مرگ ایک امام بارگاہ کے جوار میں کرائے کے دو کمروں پرمشتمل سادہ مکان میں زندگی گزار دی۔وہ جس کی نگاہ میں کوئی نگاہ ڈال کر بات نہیں کر سکتا تھا ، وہ جس کے ایک علوی لہجہ کی گھن گرج سے مشرق و مغرب کانپ جاتے تھے۔وہ جس نے یہود و سعود کی نیندیں حرام کر دیں۔دوکمروں کے اس چھوٹے سے مکان میں بغیر صوفہ سیٹ اور بغیر بیڈ کے زندگی گزار گیا۔وہ پتلی سی میٹرس پر سوتا تھا۔تقریر کے علاوہ زمین پر ہی بیٹھتا تھا۔اس نے فقیری میں درس اتباع شبیری دیا۔آج انقلاب کو 42 سال ہو گئے ہیں۔میڈیا کی آنکھ نے دیکھا کہ بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود امام راحل کی قوم نے عزت و وقار قائم رکھا۔شیعہ سنی اتحاد برقرار رکھا۔ خود اعتمادی میں معراج حاصل کی۔اپنی مدد آپ سے نظام تعلیم کو عام کیا۔عمرانیات ، سماجیات، اقصادیات، معاشیات، مذہبیات اور حیاتیات میں بڑے بڑے ممالک سے پیچھے نہیں رہی، سائنس ٹیکنالوجی ، میڈیکل ، انجینئرنگ اور حوزہ و دانش گاہ میں پوری دنیا میں نام پیدا کیا۔
دنیا کی بہت ساری مظلوم اقوام کو ظالموں کے چنگل سے نجات دلوائی،داعش جیسی بدنام زمانہ دہشت گرد تنظیم جس کے سامنے مشرق و مغرب گھٹنے ٹیک گئے تھے کو شام اور عراق سے دفع دور کر دیا۔آج سے 42 سال قبل اگر ایران میں سینکڑوں مجتہد تھے تو آج ہزاروں ہو گئے ہیں۔اگر اس وقت ہزاروں طالب علم تھے تو آج لاکھوں ہو گئے ہیں۔دنیا میں جہاں جہاں سعود ی عرب نے دہشت گردی پھیلائی ، وہاں وہاں انقلاب اسلامی نے امن کے سفیر بھیجے۔سعود ی عرب نے بدمعاشوں کے ہاتھوں میں کلاشنکوفیں دیں تو اسلامی جمہوریہ نے شرفا کے ہاتھوں میں تسبیحیاں تھمائیں۔ سعودی عرب نے دہشت گردی کے اڈے بنائے تو اسلامی جمہوریہ نے مدارس کی سرپرستی کی۔فلسطین ، کشمیر، بحرین،یمن، سعودی عرب،عراق ، شام ، افغانستان، پاکستان اور دنیا بھر کی مظلوم اقوام پر ہونے والے مظالم کے خلاف موثر صدائے احتجاج بلند کی، بیت اللہ کی یہود و سعود کے ہاتھوں سے آزادی کی مہم شروع کی۔
انقلاب کو 42 سال گزر گئے ،آج بھی ایران کے پورے ملک میں کہیں بھکاری نظر نہیں آتا۔شہروں کی صفائی پیرس کو شرما دیتی ہے۔شہروں کی روشنیاں لندن کو پیچھے چھوڑ دیتی ہیں۔تعمیراتی رونقیں یورپ ، دبئی، امریکہ و کینیڈایا برطانیہ سے کم نہیں۔مواصلاتی نظام عرب امارات کو آئینہ دکھاتا ہے۔تہذیب کی بلندی اقوام عالم میں پیش رو ہے۔42 سالوں میں رہبر کی بوریا نشینی ارباب اقتدار کی سادگی اور قوم کی پراعتمادی میں کمی نہیں آئی۔ اسلامی انقلاب علماء و زعماء، طلباءو کلائ، امراﺅ و غربا،شرفا و حکماء،چھوٹے بڑے زن و مرد،شہری دیہاتی ، عرب و عجم ،سائنسدان ، آرٹسٹ، ڈاکٹر و مریض، تاجر و مزدور اور ہر شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والے خواص و عوام کا مرہون منت ہے۔
اقصادی پابندیوں ، مختلف ممالک میں اثاثوں کے انجماد، اقوام متحدہ کی عدم تعاون کی پالیسیوں اور مشرق و مغرب کی اسلامی جمہوریہ کو تنہا کرنے کی پالیسیوں کے باوجود اس ملک و قوم کا آب و تاب سے زندہ رہنا ، شان و شوکت سے اپنے وجود کو برقرار رکھنا اور مستقل مزاجی سےاپنی مدد آپ کے تحت کرونا وائرس سمیت ہر تہاجم کا مقابلہ کرنا اور اپنی وجاہت پر حرف نہ آنے دینا ایک ایسا زندہ معجزہ ہے جو اگر بے نظیر نہیں تو کم نظیر ترین ضرور ہے۔ فجرکے موقع پر میری دعا ہے کہ اللہ کریم انقلاب اسلامی ،اسلامی جمہوریہ ، رہبر معظم، مراجع کرام، علماء و خواص و عوام اور ملت مبارز کو اپنی حفظ ایمان میں رکھے۔امام راحل ،مرحوم مراجع، و علماء و شہداءکے درجات متعالی فرمائے۔
این دعا از من و از جملہ جہان آمین باد