کمشنر کو کراچی کے بارے میں کچھ معلوم نہیں کہاں سے امپورٹ کیا؟، چیف جسٹس

0
160

کراچی:

چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے کراچی تجاوزات کیس میں ریمارکس دیے ہیں کہ کمشنر کراچی اور ڈی جی سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) محض ربڑ اسٹیمپ ہیں۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کراچی رجسٹری میں مختلف کیسز کی سماعت کی۔

متاثرین احتجاج

اس موقع پر گجر نالے کے آس پاس تجاوزات کیخلاف آپریشن کے متاثرین کی بڑی تعداد عدالت کے باہر جمع ہوئی اور گھر کے بدلے گھر دو کے نعرے لگائے۔ پینشنرز اور اساتذہ تنظیموں نے بھی اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج کیا اور چیف جسٹس انصاف دو کے نعرے لگائے۔

چیف سیکریٹری سندھ سید ممتاز علی شاھ عدالت میں پیش ہوئے۔ کمشنر کراچی کی جانب سے ڈپٹی کمشنرز کی رپورٹ پیش کرنے پر عدالت نے شدید برہمی کا اظہار کیا۔ کمشنر کراچی نے کہا کہ شہر میں ہاکی گراؤنڈ، کھیل کے میدان بنا دیے ہیں۔

کمشنر کراچی

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کمشنر کراچی کو فارغ کریں، انہیں تو کراچی کے بارے میں کچھ معلوم ہی نہیں، انہیں کہاں سے امپورٹ کیا؟ ہمارا آرڈر کیا تھا اور یہ کیا بتا رہے ہیں، کمشنر کراچی، ڈی جی ایس بی سی اے کو معلوم نہیں کتنے نیب ریفرنس بنیں گے ان کے خلاف، یہ ربڑ اسٹیمپ ہیں بس، یہ ہمارے لیے بڑی مشکلات پیدا کر رہے ہیں، عام شہریوں کو کتنی مشکلات کر رہے ہوں گے یہ لوگ؟۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ انہیں ڈپٹی کمشنرز کے بجائے اپنی رپورٹ پیش کرنی چاہیے تھی۔

ہل پارک کیس

چیف جسٹس نے کمشنر کراچی سے استفسار کیا کہ بتائیں ہل پارک کا کیا ہوا؟۔ کمشنر کراچی نے جواب دیا کہ کچھ مکینوں نے نظر ثانی درخواستیں دائر کی ہیں۔ مکینوں کے وکیل نے کہا کہ ہمیں معاوضہ دیں، 40، 45 سال پہلے گھر خریدے، نقشے موجود ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جنہوں نے گھر خریدے، انہیں سب معلوم تھا، میں کہیں جگہ لوں گا تو دیکھوں گا تو ضرور، جنہوں نے گھر خریدے وہ اتنے معصوم نہیں۔ عدالت نے ہل پارک تجاوزات کیس میں مکینوں کی فریقین بننے کی درخواست مسترد کردی۔

کمشنر کراچی نے کہا کہ تیجوری ہائٹس اور کریک سائیڈ شاپنگ سینٹر کو عدالتی حکم پر سیل کر دیا، رائیل پارک میں سب ٹاور گرا دیے، باغ ابنِ قاسم میں تعمیرات کو منہدم کردیا گیا۔

عدالت نے کمشنر کراچی کو باغ ابن قاسم کی تزئین و آرائش مکمل کرنے کا حکم دیتے ہوئے آئندہ سماعت پر پیش رفت رپورٹ طلب کرلی۔

 

نسلہ ٹاور

عدالت نے شاہراہ قائدین تجاوزات کیس میں نالے پر قائم نسلہ ٹاور کے بارے میں پوچھا تو کمشنر کراچی نے کہا کہ ایس بی سی اے نے کہا ہے کہ عمارت نالے پر نہیں۔

ایس بی سی اے

چیف جسٹس نے کہا کہ ایس بی سی اے والے خود ملے ہوئے ہیں، کل سپریم کورٹ کی عمارت پر دعویٰ کردیں گے، سپریم کورٹ کا لے آؤٹ پلان لے آئیں گے تو ہم کیا کریں گے، کل سپریم کورٹ کی عمارت کسی کو دے دیں گے آپ لوگ، کل وزیراعلیٰ ہاؤس پر کسی کو عمارت بنوا دیں گے آپ لوگ، دنیا کو معلوم ہے کون چلا رہا ہے ایس بی سی اے، ہر مہینے ایس بی سی اے میں اربوں روپے جمع ہوتا ہے، سب رجسٹرار آفس، ایس بی سی اے اور ریونیو میں سب سے زیادہ پیسہ بنایا جاتا ہے، یہاں ایس بی سی اے بلڈر ہی کی تو ترجمانی کر رہا ہے، 50 سالہ پرانے علاقے میں اچانک کیسے ایک پلاٹ نکل آتا ہے؟، اچانک لیز کردی جاتی ہے؟۔

چیف جسٹس نے ڈی جی ایس بی سی اے کو نسلہ ٹاور کو گرانے کا حکم دیتے ہوئے بلڈر کو نوٹس جاری کردیے اور عمارت کا مکمل ریکارڈ طلب کرلیا۔

کراچی میں مختیار کار

فیروز آباد میں مختیار کار تعینات کرنے کے معاملہ پر چیف جسٹس نے کہا کہ وزیراعلیٰ سندھ کو کہیں یہاں آئیں اور وضاحت دیں، تھوڑی دیر میں مختیار کار ڈی ایچ اے بھی آنے والا ہے۔ چیف جسٹس کے ریمارکس پر کمرہ عدالت میں قہقہے لگ گئے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جب یہاں مختیار کار ہے تو پھر ڈی ایچ اے میں بھی تو مختیار کار ہوگا، کراچی کو مختیار کاروں میں بانٹ دیا کیا؟ اگر یہاں مختیار کار شہر کو آپریٹ کر رہا ہے تو پھر شہر گیا، کراچی میں مختیار کار نہیں، کمشنر کراچی ہی ہوتا ہے، یہاں تو اب کسی کی جائیداد محفوظ نہیں رہے گی، فیروز آباد میں مختیار کار پہلی مرتبہ سن رہا ہوں، یہاں سماعت کرنا بے کار ہے ہمارا، مختیار کار آگیا تو نو مور کراچی۔ عدالت نے مختیار کار فیروز آباد کو فوری طلب کرلیا۔

ایڈوکیٹ جنرل نے کہا کہ سندھ ریونیو ایکٹ کے تحت زمینوں کا ریکارڈ مختیار کار کے پاس ہوتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے ساری زندگی جتنی وکالت کی ہے یہ بات کبھی سامنے نہیں آئی، سندھی مسلم سوسائٹی تعلقہ نہیں ہے، آپ عدالت کی معاونت کے بجائے فراڈ کا دفاع کررہے ہیں، کل مختیار کار کی جگہ کوئی اور دفتر کھل جائے گا، سب کچھ گڑ بڑ گھٹالا ہوجائے گا، سوسائٹئز میں مختیار کار کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔

سپریم کورٹ میں کراچی سرکلر ریلوے کے معاملہ کی سماعت ہوئی تو کمشنر کراچی نے بتایا کہ ٹریک ریلوے اتھارٹی کو ہینڈ اوور کردیا ہے۔ پروجیکٹ ڈائریکٹر نے بتایا کہ اورنگی سے 14 کلو میٹر کی ٹرین چل گئی ہے جہاں نو اسٹیشنز ہیں۔

سیکریٹری ریلوے نے کہا کہ کنٹریکٹ ایف ڈبلیو او کے حوالے کردیا گیا ہے۔ اس پر وکیل ایف ڈبلیو او نے جواب دیا کہ ایف ڈبلیو او کو ابھی تک کوئی ٹھیکہ نہیں دیا گیا۔

سیکریٹری ٹرانسپورٹ نے اس پر کہا کہ کابینہ سے منظوری لے کر ورک آرڈر دے دیا گیا ہے، 25 ملین روپے ایڈوانس پری فزیبیلیٹی کیلئے مانگا گیا تھا جو ادا کردیا گیا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ایف ڈبلیو او کو پیسے بنانے کیلئے یہ کام نہیں دیا گیا ہے، یہ مفاد عامہ کا کام ہے اور آپ پیسے مانگ رہے ہیں۔ جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیے کہ 25 ملین روپے جس کام کیلئے لیے تھے وہ تو کرلیتے۔

ایف ڈبلیو او کو کچھ نہیں آتا

کمانڈنگ افسر ایف ڈبلیو او نے کہا کہ ہم سندھ حکومت اور ریلوے کو چار آپشنز دے چکے ہیں، اب دو آپشنز ہیں جس پر کام ہوگا۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ کے پاس تجربہ ہے اس کام کا؟، خانیوال میں ریلوے کا ایک کام ملا تھا وہ آٹھ سال سے زیر التوا ہے، آپ وزیراعلیٰ کی رپورٹ پڑھیں انہوں نے کہا آپ کو کچھ نہیں آتا۔ سپریم کورٹ نے 9 ماہ میں کے سی آر مکمل کرنے کا حکم دے دیا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here