پاکستان میں آئے دن نت نئی انتخابی اصلاحات کا شورو غل رہتا ہے۔ جس میں کبھی بھی کسانوں، ہاریوں، مزدوروں کیلئے کوئی اصلاحات کا ذکر تک نہیں ہوتا ہے کہ اگر پاکستان میں خواتین کیلئے 60 قومی اسمبلی اور 128 صوبائی اسمبلیوں میں نشستیں مخصوص کر دی گئی ہیں یا پھر غیر مسلم اقلیتوں کیلئے قومی اسمبلی میں 10 اور صوبائی اسمبلیوں میں 23 نشستیں مخصوص کر دی گئی ہیں تو پاکستان کے 80 فیصد غریب کسانوں، ہاریوں اور مزدوروں کیلئے کیوں نہیں مخصوص نشستوں کا بندوبست کیا جارہا ہے جو موجودہ جاگیر داری ، سرمایہ داری، اجارہ داری اور رسہ گیر نظام میں کبھی بھی اپنی نمائندگی نہیں کر سکتے۔ جن کو ان جاگیرداروں، ودیروں، میروں اور چوہدریوں نے غلام بنا رکھا ہے۔ جن کو مغلوں کے بعد انگریز حکومتوں کیلئے ضمیر فروشی، وطن فروشی اور مخبری پر انگریزوں نے زمینوں اور جاگیرداروں سے نوازا تھا۔ جو سارا سال کاشتکاری کرتے ہیں مگر راتوں کو بھوکے سوتے ہیں جبکہ زمینوں کے مالکن بنگلوں ، کوٹھیوں، محلوں اور چوباروں میں رہائش پذیر ہیں جو انتخابات کے موقع پر الیکٹ ایبل کہلاتے ہیں۔ انتخابات جیت جانے کے بعد اپنے اپنے علاقوں کے غریبوں، بے بسوں، بے سہاروں اور بے اختیاروں کیلئے کوئی رفاحی، تعلیمی یا سماجی کام نہیں کرتے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان کے دیہی علاقوں میں تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے۔ جہاں غربت کا پیمانہ پچاس فیصد سے بھی گرچکا ہے۔ جبکہ زرعی ملک ہوتے ہوئے بھوک ننگ کا شکار ہے۔ اسی طرح مزدوروں سے کاروبار، ملیں، فیکٹریاں اور تجارت چلی ہے مگر مزدور ننگے آسمان تلے بھوکا سوتا ہے۔ جس کی وجہ سے پاکستان میں امیر اور غریب کا بہت بڑا فرق پایا جاتا ہے۔
مزید برآں ناقص زرعی اصلاحات اور جاگیرداری نظام کی وجہ سے پاکستان میں زراعت پسماندگی کا شکار ہو چکی ہے جس کیلئے ضروری ہو چکا ہے کہ اول ملک میں انگریزوں کی عطا اور پیدا کردہ جاگیرداری کا بھارت کی طرح خاتمہ ہو۔ جو ہل چلائے اسے زمین دی جائے۔ جو پاکستان میں زرعی انقلاب برپا ہو جائے گا جس کی بعد ملک دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہو جائے گا۔ دوئم کسانوں کو پارلیمنٹوں میں مخصوص نشستوں پر نمائندگی دی جائے تاکہ پاکستان کے پسے ہوئے عوام بھی ملکی معاملات اور وسائل میں برابر کے شریک ہو پائیں۔ جس کیلئے لازم ہے کہ موجودہ پارلیمنٹ میں کسانوں ، ہاریوں اور مزدوروں کی مخصوص نشستیں پیدا کی جائیں چاہے پارلیمنٹ میں ممبران کی تعداد میں اضافہ کیوں نہ کرنا پڑے۔ جس کے لئے کم از کم پچاس پچاس نشستیں قومی اسمبلی اور باقی کسانوں اور مزدوروں کی آباد ی کے لحاظ سے صوبائی اسمبلی میں نشستوں میں اضافہ کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ پاکستان میں انصاف پسند طبقے کو محسوس ہو جائے کہ آج نہیں تو کل یہ سب کچھ کرنا پڑے گا ورنہ دیر ہو جائے گی۔
تاہم پاکستان میں غریب طبقے میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ دولت اور وسائل امراء کے پاس جمع ہو چکی ہے جس پر جاگیرداروں، وڈیروں، سرمایہ داروں، اجارہ داروں اور رسہ گیروں کا قبضہ ہے جو غریبوں، بے کسوں، بے بسوں اور بے اختیاروں کی سیاسی، سماجی اور معاشی زندگی پر غالب ہیں جن کے بچے امراء کی مرضی کے بغیر اسکول تک نہیں جا سکتے ہیں جو اپنی بچیوں کی شادی بیاہ وڈیروں اور جاگیرداروں کی ایماء کے بغیر طے نہیں کر سکتے۔ جن کی عزتیںوڈیروں اور جاگیرداروں کے ہاں گروی پڑی ہوئی ہیں۔ ایسے میں ملک میں کمپیوٹرائزڈ ووٹنگ مشینوں یا دوسر ذریعے سے انتخابات بے معنی ہیں جس میں انتخابات میں صرف اور صرف امراء جیتیں گے جن میں غریبوں کا کوئی فرد پارلیمنٹ کا حصہ نہیں بن پائے گا۔
علاوہ ازیں انتخابی اصلاحات کا نفاذ تب ہو گا جب الیکشن کمیشن بھارت، امریکہ، برطانیہ اور دیگر جمہوری ممالک کی طرح آزاد اور خود مختار ہو گا۔ وہ الیکشن کمیشن کیا رول ادا کر پائے گا جس کے سامنے 25 جولائی 2018ء کی ووٹنگ پر ڈاکہ زنی ہو ئی اور الیکشن کمیشن کا عملہ یرغمال بنا لیا گیا۔ پارٹیوں کے پولنگ ایجنٹوں کو دفتروں سے باہر نکال دیا گیا۔ ووٹنگ کی گنتی پولینگ ایجنٹوں کے سامنے نہ ہوئی، کمپیوٹر فیل کر دئیے گئے۔ پندرہ لاکھ ووٹ رد کر دئے گئے۔ انتخابات کے نتائج میں کئی کئی گھنٹوں اور دنوں کی دیر کی گئی یا پھر آج الیکشن کمیشن کیخلاف یک طرفہ قوانین بنائے جا رہے ہیں جس میں الیکشن کمیشن کے اختیارات دوسرے سرکاری اداروں کے حوالے کئے جا رہے ہیں یہ جانتے ہوئے کہ الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے جو عدلیہ کی طرح حکومت کے خلاف بھی فیصلہ دے سکتا ہے جس پر مختلف قدغنوں سے پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں جو انتخابی اصلاھات کی مکمل نفی کرتا ہے۔ جن ممالک میں عدلیہ کی طرح الیکشن کمیشن آزاد اور خود مختار ادارے ہیں وہاں آج جمہوریت پنپ رہی ہے کہ عوام کی مرضی کیخلاف کچھ نہیں ہو سکتا ہے اگر ہو گا تو عوام فوری اپنی ووٹنگ کی طاقت سے حکمرانوں کو بدل دیتے ہیں چاہے انتخابات مقررہ وقت پر ہوں یا قبل از وقت انتخابات کروانا پڑیں۔ عوام کی مرضی اول تصور ہوتی ہے جس کی وجہ سے جمہوری ممالک میں حکومتیں آئے دن گرتی یا بنتی نظر آتی ہیں جس کو مہذب دنیا میں جمہوریت ، آزادی اور عوام کی طاقت کہا جاتا ہے۔ برعکس پاکستان میں جمہوریت نام کی کوئی شے نہ ہے ۔ جب کبھی سیاستدان عوام سے منتخب ہو کر ایوانوں میں آتے ہیں تو ان سے یہ حق مارشل لاء یا مختلف حربوں سے چھین لیا جاتا ہے جس کی وجہ سے پاکستان پر 9 سال تک گورنر جنرل کا راج رہا ہے جس کو ملکہ برطانیہ نامزد کیا کرتی تھی یا پھر 35 سال تک فوجی جرنیلوں کی حکمرانی رہی ہے جو آئین پاکستان کو پامال کرکے اقتدار میں آئے۔ جنہوں نے آئین پاکستان کو معطل اور منسوخ کرکے اپنا قانون نافذ کیا ہے جس کی وجہ سے عام عوام اب تک اقتدار میں شریک نہیں ہو پائے ہیں۔ بہرحال پاکستان کی سیاست اور جمہوریت ایک چوں چوں کا مربہ بن چکی ہے۔ جس میں اداروں کواپنے اپنے اختیارات کا حق حاصل نہیں ہے۔ جن پر طاقتور اداروں کا غلبہ یا قبضہ ہے۔ جن کے سامنے ملک کا سپریم ادارہ پارلیمنٹ بھی بے معنی ہے کس کو کئی مرتبہ آمر اور جابر حکمرانوں ن برطرف کیا ہے ۔ آج بھی پارلیمنٹ اپاہج بنا دی گئی جس کے بغیر صدر کے حکم پر قانون سازی ہو رہی ہے جو جمہوریت اور پارلیمانی روایات اوراختیارات کے خلاف ہے مگر یہ غیر قانونی اور غیر آئینی حرکتوں اور حربوں کا سلسلہ جاری ہے جس کا خاتمہ یقینا انقلاب فرانس ، انقلاب روس اور انقلاب چین کے بغیر ناممکن ہے لہٰذا ڈرو اس دن سے جب پاکستان کے کسان اور مزدور متحد اور منظم ہو کر تمہارا قلعم قمع کر دیں گے۔