نیویارک (پاکستان نیوز) امریکہ میں مسلمانوں نے جس طرح نائن الیون کے بعد بڑھتے نفرت آمیز واقعات کا مقابلہ کرتے ہوئے خود کو منوایا وہ اپنی مثال آپ ہے ، ہر میدان میں مسلم کمیونٹی نمایاں طور پر سامنے آئی ہے اگر سیاست کی بات کی جائے تو اس میں مسلم قیادت ایک اُبھرتی قوت کے طور پر سامنے آ رہی ہے ، 2018 کی بات کی جائے تو مجموعی طور پر 57 مسلم نمائندوں نے انتخابات میں حصہ لیا جبکہ 2020 میں 28 ریاستوں میں سے 170مسلمانوں نے انتخابات میں حصہ لیا اور ان میں سے 62 سیٹیں جیتنے میںکامیاب رہے ۔نجی کمپنی کے سروے کے مطابق گزشتہ انتخابات میں مسلمانوں نے ریکارڈ دس لاکھ ووٹ کاسٹ کیے ہیں ۔زندگی کے ہر شعبے میں مسلمانوں کی اہمیت میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے ،2002 سے 2016 کے درمیان مسلم تارکین کو شہریت دینے میں 627 فیصد اضافہ ہوا جن کی تعداد 6 ہزار سالانہ سے 40ہزار سالانہ تک پہنچ چکی ہے ۔ یو ایس سی اینا برگ سٹیڈی کے مطابق 2017 سے 2019 کے درمیان دنیا بھر میں بننے والی200 فلموں کے مرکزی کردار میں مسلمانوں کو دکھایا گیا جبکہ امریکہ میں 1.6 فیصد فلمیں مسلمان کرداروں پر بنائی گئی ہیں ، مسلمانوں نے مذہبی طور پر بھی نمایاں مقام حاصل کیا ہے ، 2010 کے دوران مساجد کی تعداد 1209 کے قریب تھی جو اب بڑھ کر ڈبل یعنی 2769 ہو چکی ہے ، مسلمان سیاسی میدان میں زیادہ متحرک اور فعال طور پر سامنے آئے ہیں ،خاص طور پر مسلم خواتین نمائندوں راشدہ طالب اور الہان عمر نے سوشل میڈیا اور سیاسی پلیٹ فارم پر عالمی اور ملکی سطح پر مسلمانوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کر کے ملک میں مسلمانوں کو اہمیت کو اُجاگر کیا ہے ، مسلمانوں نے زندگی کے ہر شعبے میں نفرت آمیز واقعات ، برے القابات سے پکارے جانے جیسے واقعات کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنے اہداف کو حاصل کیا ہے ، ایف ٹی سی کی چیئر لینا خان اور جج زاہد قریشی کی تقرریوں کو مسلمانوں کی بڑی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے ، 2018 میں کانگریس میں مسلمانوں کے لیے سیٹ حاصل کرنے والے 40 سالہ عمر قدرت نے کہا کہ مسلمان ایک مضبوط سیاسی قوت کے طور پر سامنے آ رہے ہیں جوکہ مستقبل میں ملکی سیاست کا رخ بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ، مسلمانوں کی سیاسی وابستگی کو تمام جماعتیں اہمیت دے رہی ہیں ، کیئر کے فروری 2020 میں کیے گئے سروے کے مطابق 39 فیصد مسلمانوں ووٹرز نے بائیڈن کی بجائے برنی سینڈرز کی حمایت کی تھی جس سے وہ کامیاب ہوئے ، مسلم خواتین نمائندوں راشدہ طالب اور الہان عمر نے مسلمانوں کو سیاسی طور پر متحرک کرنے میں کلیدی کردار اد ا کیا ہے اور اب بھی کر رہی ہیں ، بات فلسطینی مسلمانوں کی ہو یا امریکی مسلمانوں کی راشدہ طالب اور الہان عمر سیاسی پلیٹ فارم پر ہمیشہ مسلمانوں کا دفاع کرتی دکھائی دی ہیں ، دریں اثناء نائن الیون کے حملوں نے مسلمانوں کی زندگیوں کو ڈرامائی انداز سے تبدیل کر دیا ، مسلمانوں کیخلاف نفرت آمیز واقعات کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ، ایسے مسلم جوکہ امریکہ میں اپنے خوابوں کو حاصل کرنے کیلئے آئے کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ ہر شعبہ زندگی ان کے لیے تنگ کر دیا گیا تھا ۔ گیارہ ستمبر 2011 کو امریکہ میں مسلمانوں کی زندگیوں میں اہم موڑ قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ نائن الیون کے بعد نیویارک ، پنسلوانیا اور ورجینیا میں مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوا ، مسلمانوں کو ہر سطح پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ، ہر راستہ ان کے لیے تنگ کر دیا گیا ، مسلمانوں کی بڑی تعداد پرتشدد واقعات میں زخمی ہوئی بلکہ درجنوں اپنی جانوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ،فلسطینی نژاد 28 سالہ روا رومن بھی ان بدقسمت مسلمانوں میں شامل ہے جن کو اوائل عمری میں ہی نائن الیون کے حوالے سے گھٹن زدہ ماحول کا سامنا کرنا پڑا ۔ انھوں نے بتایا کہ نائن الیون کے وقت وہ 8سال کی تھیں اور جلد ان کی زندگی ایک برے خواب میں بدل گئی تھی ، سی این این کے ساتھ گفتگو میں انھوں نے بتایا کہ سکول میں کوئی ایک دن بھی ایسا نہیں تھا جب ان کو نائن الیون کے حوالے سے برے القابات سے نہ پکارا گیا ہو ، یہ سب بہت خوفناک اور تکلیف دہ تھا۔رومن کیئر میں کمیونیکیشن ڈائریکٹر کے طور پر فرائض انجام دے رہی ہیں ، ورجینیا سے تعلق رکھنے والے پاکستانی نژاد امریکی اور انسانی حقوق کے وکیل 39 سالہ قاسم راشد نے بتایا کہ میں نے نائن الیون کا واقعہ آفس ٹی وی پر براہ راست دیکھا تھا اور اس کے بعد ہماری زندگی میں مسلسل اندھیرا چھا گیا ، زندگی کے ہر شعبے میں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا اور بڑی جدوجہد کے بعد آج اس مقام پر پہنچا ہوں ، بنگلہ دیشی نژاد امریکی مسلم پروفیسر 44 سالہ نقیب الرحمن نے بتایا کہ وہ نائن الیون حملے سے ایک ہفتہ قبل امریکہ آیا تھا ، نقیب نے بتایا کہ میں اپنے خوابوں کو حقیقت کا روپ دینا چاہتا تھا کہ ایک دم زندگی نے ڈرامائی موڑ لیا اور مستقبل تاریک نظر آنے لگا ۔ اٹلانٹا سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ اشانتی جبری جوکہ مارشل آرٹسٹ اور ڈیٹا انالسٹ نے بتایا کہ انہیں نوجوانی میں ہی نائن الیون کے حوالے سے نفرت آمیز واقعات کا سامنا کرنا پڑا ہے اور انھوں نے ہمیشہ امریکہ میں خود کو تیسری دنیا کا شہری ہی پایا ہے جس طرح زندگی کے ہر میدان میں ان کے ساتھ امتیازی رویہ اپنایا گیا وہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں ۔ 41 سالہ پاکستانی امریکن پروفیسر نادیہ احمد نے بتایا کہ نائن الیون کا ذمہ دار مسلم دہشتگردوں کو قرار دیئے جانے کے بعد ہم پریشانی سے دوچار تھے کہ اب ہمارا کیا بنے گا بلکہ یہی پریشانی ہمیں ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کے بعد محسوس ہوئی تھی ۔ افغان امریکی کمیونٹی آرگنائزر 44 سالہ انیلہ افضالی نے بتایا کہ روس کے افغانستان پر قبضے کے موقع پر ہم نے جرمنی نے پناہ لی جس کے بعد امریکہ آئے تاکہ مستقبل کو مزید اچھا بنا سکیں لیکن یہ اتنا آسان نہیں تھا جتنا ہم نے سوچا تھا اور خاص طور پر نائن الیون نے ہماری زندگیوں کو بدل کر رکھ دیا تھا ، اب ہمیں ہر جگہ خود کا تعارف کروانے میں تکلیف محسوس ہوتی تھی ، ہم ڈرتے لوگوں کو نہیں بتاتے تھے کہ ہم مسلمان ہیں یا ہمارا تعلق افغانستان سے ہے ۔