یہ لیجئے جس بات کا خدشہ تھا وہی ہوگیا، طالبان کے وزیر تعلیم شیخ مولوی نوراﷲ منیر بول پڑے ، اُن کی ایک ویڈیو آن لائن وائرل ہوئی ہے جس میں اُنہوں نے فرمایا کہ پی ایچ ڈی یا ماسٹر کی ڈگری کی اِن دنوں کوئی اہمیت نہیں ، آپ دیکھ لیں طالبان ، ملایان جو اِن دنوں اقتدار کے سنگھا سن پر متمکن ہیں اُن میں سے کوئی بھی پی ایچ ڈی یا ماسٹر کی ڈگری کا حامل نہیں، بلکہ بعض تو سکول کی چھٹی یا ساتویں جماعت سے زیادہ تعلیم حاصل نہیں کی ہے،اُن کی ویڈیو جنگل کی آگ کی طرح وائرل ہوگئی اور از راہ مہربانی اُن کے خلاف آن لائن طوفان بدتمیزی بپا کردیا گیا ، ٹویٹر کا ایک صارف جو شاید بلڈ پریشر کا مریض بھی ہو اپنے غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اِس شخص کو کیا ضرورت پڑگئی تھی کہ وہ اپنی زبان کھولے، حصول علم کے بارے میں ایسے شرمناک خیالات وہ بھی اُس شخص سے جو وزیر تعلیم ہو بچوں اور نوجوانوں کیلئے ایک ہولناک سانحہ سے کم نہیں تاہم ایک اور نوجوان نے ٹویٹ کیا اور کہا کہ انھوںنے بھی کمپیوٹر سائنس میں ایم ایس کی ڈگری حاصل کی ہوئی ہے لیکن جگہ باجگہ ملازمت کیلئے ٹھوکر کھانے کے بعد اب وہ ہالی ووڈ کی فلم انڈسٹری سے وابستہ ہوگیا ہے، اُس نے کہا کہ اگر آپ جو ملازمت پی ایچ ڈی کی ڈگری لینے کے بعد حاصل کر سکتے ہیں تو وہی ملازمت آپ کو ایم ایس کرنے کے بعد بھی مل سکتی ہے۔
لیکن بلاشبہ بعض حضرات جن کا پیشہ ڈگری فروخت کرنا ہے وہ مولوی نور اﷲ کے ادراک سے متفق نہیں ہیں، اُن ہی میں سے کراچی یونیورسٹی کے ایک پروفیسر نے کہا کہ شاید طالبان کے وزیر تعلیم اپنے ملک کو عہد سنگ و خشت میں لے جانے کے متمنی نظر آتے ہیں، وہ طلبا کو سائنس کی ایجادات ، آرٹ اور ادب کے شاہکار سے آگاہ کرنے کے بجائے اُنہیں یہ سکھانا چاہتے ہیں کہ پتھر سے کس طرح کسی نشانے کو ضرب لگایا جاتا ہے۔ پروفیسر نے کہا کہ طالبان کو افغانستان کی حکومت پر قابض ہونے کے بعد کچھ دِن تک آرام کرنا چاہئے، طالبان میں جو نوجوان غیر شادی شدہ ہیں اُنہیں افغانستان میں یا پاکستان آکر اپنے لئے کوئی لڑکی ڈھونڈنی چاہئے، حکومت پاکستان طالبان کیلئے خصوصی طور پر شادی ویزا کا اجرا کرے تاکہ طالبان کا دماغ ٹھنڈا ہو، اُنہوں نے کہا کہ طالبان کو یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چا ہئے کہ کراچی اور لاہور کی لڑکیاں طالبان کے فلسفہ نسواں سے ہم آہنگ نہیں ہیں، نہ ہی وہ کسی بھی صورت پر اُن کے حکم پر برقعہ پہن سکتی ہیں، اور نہ ہی شاپنگ کرنے کی اپنی آزادی پر حرف آتے دیکھ سکتی ہیں، اِسلئے طالبان جو جنگیں ماضی میں افغان اور امریکا کی حکومتوں سے لڑیں ہیںاب اُنہیں پاکستان اور افغانستان کی خواتین سے اُنہیں لڑنا پڑینگی ، بہتر ہے اِس سے قبل وہ اپنی سوچ و فکر پر نظر ثانی کریں۔
اِن دنوں افغانستان کی وزارت خارجہ میں غیر ممالک سے جو بھی کال آرہی ہے اُسے ایک طالبان وصول کر رہا ہے،طالبان بغیر کسی ہچکچاہٹ سے یہ پوچھ لیتا ہے کہ آپ کے ملک کے کتنے بندے یہاں پھنسے ہوئے ہیں ، ڈنمارک کی وزارت خارجہ کے ایک اعلیٰ افسر نے طالبان کو بتایا کہ اُن کے ملک کے 200 بندے افغانستان میں مقید ہیں، طالبان نے جواب دیا کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں اُن سبھوں کو ہوائی جہاز میں بیٹھا دیا جائیگا، آپ صرف 400 ملین ڈالر وائر ٹرانسفر کردیں، طالبان کی بات سن کر ڈنمارک کی افسر کے دماغ کی رگیں چٹخ کر رہ گئیں، اُس نے کہا کہ اُسے اِس طرح کے دِن دیہاڑے ڈکیتی کی توقع نہ تھی ، جس پر طالبان نے جواب دیا کہ جب امریکا اُسامہ بن لادن کے سر کی 50 ملین ڈالر قیمت لگا سکتا ہے تو پھر آپ کی حکومت اپنے ملک کے ایک شہری کیلئے دو ملین ڈالر ادا نہیں کر سکتی. ڈنمارکی افسر نے کہا کہ وہ اپنے ملک کے وزیراعظم سے بات کرکے پھر اُسے کال کریگا۔
اِس امر میںکسی شک کی گنجائش نہیں کہ اِن دنوں افغانستان میں ہر سرکاری محکمہ اندھیر نگری چوپٹ راج کا شکار ہے یہی وجہ ہے کہ ترکی کا ایک بزنس مین افغانستان آٹا بر آمد کرنے کیلئے وہاں کے محکمہ خارجہ پہنچ گیا، اُسے یقین نہ تھا کہ وہی محکمہ اُس کی مدد کر سکتا ہے تاہم اُسے یہ یقین ضرور تھا کہ اُسے کم ازکم وہاں سے کچھ معلومات ضرور حاصل ہوجائینگی،ترکی کے بزنس مین نے افغانستان محکمہ خارجہ کے ایک اہلکار کو اپنے آنے کی وجہ بتائی، اہلکار نے اُسے یقین دلایا کہ اُس کا محکمہ سارے محکمات کا باپ ہے اور وہ سارے کام کو ایک گھنٹے میں انجام دے سکتا ہے لیکن طالبان کے آنے سے قبل اِس کی فیس پانچ ہزار ڈالر تھی اور اب دس ہزار ڈالر ہے، بزنس مین نے ازراہ کرم دریافت کیا کہ کیا دس ہزار ڈالر کی فیس سرکاری خزانے میں جائیگی۔ اہلکار نے جواب دیا کہ سرکاری خزانہ ابھی بند ہے، سابق صدر اشرف غنی اُس کی چابی لے کر بھاگ گئے ہیں، اِسلئے یہ رقم میری پاکٹ میں جائیگی . ویسے میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ کا کام ضرور ہوجائیگا. اگر نہ ہوا تو آدھی رقم واپس کر دونگا یہی دستور سعودی عرب میں بھی ہے۔
طالبان کے ایک اور وزیر نے کہا ہے کہ اگر مغربی ممالک افغانستان کی جمع شدہ رقم کو اُسے واپس نہ کریں یا اُس کی امداد نہ کرینگے تو افغانی حکومت افیون کی پیداوار کو از سر نوع شروع کردے گی، افیون کا کثرت سے استعمال مغربی ممالک میں ہوتا ہے جہاں کے نوجوان اِس کا کش لگانے کے بعد خواب خرگوش میں مبتلا ہوجاتے ہیں، امریکی فوج کے سارجنٹس جو افغانستان لائن آف ڈیوٹی پر گئے تھے، وہ بھی بُری طرح افیون کا کش لگانے کے عادی بن گئے تھے بعض فوجی تو بارہا افغانستان واپس جانے کو ترجیح دیتے تھے، تاکہ اُنہیں وہاں کش لگانے کے مواقع مل سکیں یہی وجہ ہے کہ مغربی ممالک اِس کی از سرنوع پیداوار پر سخت کشمکش کا شکار ہیں۔