اسلام آباد:
اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) میں چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے پر اتفاق کرلیا ہے ۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق اسلام آباد میں جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی سربراہی میں اپوزیشن کی آل پارٹیز میں جماعت اسلامی کے سوا تقریباً تمام اپوزیشن جماعتوں کے قائدین نے شرکت کی۔
اجلاس میں سیاسی جماعتوں میں اسمبلیوں سے استعفوں پر اتفاق نہیں ہوسکا، جمیعت علمائے اسلام (ف)، عوامی نیشنل پارٹی ( اے این پی) اور پختونخوا میپ نے استعفوں کی حمایت کی جب کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کا موقف ہے کہ ہمیں اتنی جلدی حکومت کو مظلوم نہیں بننے دینا چاہیے۔
حکمرانوں کا ایجنڈا گھناؤنی سازش کا حصہ، اعلامیہ
اے پی سی کے بعد میڈیا میں مشترکہ اعلامیے کا اعلان کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ اے پی سی میں شامل سیاسی جماعتیں ملک کی ڈگمگاتی معیشت کو بچانے، ملکی سلامتی، اسٹریٹجک اثاثے اور سی پیک جیسے منصوبوں کو دشمن قوتوں سے بچانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اے پی سی نے انکوائری کمیشن کو مسترد اور پارلیمنٹ پر حملہ قراردیا این ڈی سی غیر قانونی ادارہ ہے اور اسے ختم کردیا جائے، 2000سےلےکراب تک لیےگئےقرضوں کی تحقیقات ہونی چاہیئں.
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ بیرونی ادائیگیوں کا دباؤ ملکی سلامتی کے لیے بڑا چیلنج ہے۔ حکومت 11 ماہ میں کارکردگی کے اعتبار سے اپنی نااہلی پر مہر ثبت کر چکی ہے۔ پاکستان میں عوام کے نمائندہ حکمران موجود نہیں، نام نہاد حکمرانوں کا ٹولہ 25 جولائی 2018 کے انتخابات میں بدترین دھاندلی کے بعد مسلط ہوا، ان انتخابات کو ملک کی تمام سیاسی جماعتیں مسترد کرچکی ہیں۔ حکمرانوں کا ایجنڈا ملکی مفادات کی بجائے کسی گھناؤنی سازش کا حصہ ہے۔ ملکی حالات بہت بڑا سکیورٹی رسک ہیں، حکومت کے فیصلے ملکی سلامتی، خود مختاری اور بقا کے لیے خطرہ بن چکے ہیں۔ اس سے قبل کہ ملک کسی سانحہ کا شکار ہو، ہمیں متفقہ بیانیے پر متفق ہونا ہوگا
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ سینیٹ کے چیئرمین کوآئینی طریقے سے ہٹایا جائے گا۔ رہبرکمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے جو اے پی سی کے فیصلوں پرعمل کرے گی اور جس میں آیندہ کی حکمت عملی بنائی جائے گی۔ چاروں صوبوں میں عوامی رابطہ مہم شروع کی جائے گی، 25 جولائی کے بعد چاروں صوبوں میں مشترکہ جلسے کیے جائیں گے۔ اپوزیشن کے تمام ممبران کےدھاندلی پر پارلیمانی کمیٹی سےمستعفی ہونے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
مولانا فضل الرحمان
اے پی سی میں خطاب کے دوران فضل الرحمان نے کہا کہ دھاندلی کے ذریعے آنے والی حکومت کے باقی رہنے کا کوئی جواز نہیں،
مہنگائی اورعوامی مسائل میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے، حکومت کے خلاف اپوزیشن کو ایک پلیٹ فارم پرہونا چاہیے جب کہ 25 جولائی 2018 کوہونے والے عام انتخابات میں بدترین دھاندلی ہوئی جسے یوم سیاہ کے طور پر منانا چاہیے۔
شہباز شریف
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ تاریخ میں موجودہ بجٹ سے زیادہ بدترین بجٹ نہیں دیکھا، حکومت کے ہاتھ روکنے کے لئے اسمبلی کے اندر اور باہر کردار ادا کرنے کو تیار ہیں دھاندلی کی تحقیقات کے لئے پارلیمانی کمیٹی کے قیام کے لئے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
اسفندیار ولی خان
عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے سربراہ اسفندیار ولی نے اپوزیشن کی اے پی سی میں تجویز پیش کی کی چیئرمین سینیٹ کو تبدیل کیا جانا چاہیے، اپوزیشن نے صادق سنجرانی کو ہٹانے کا اقدام نہ اٹھایا تو عوام اعتماد نہیں کرے گی۔
مریم نواز
مریم نواز کا اے پی سی میں خطاب کے دوران کہا کہ آل پارٹیز کانفرنس میں ٹھوس فیصلے ہونے چاہئیں، 70 سال میں ریکارڈ قرضہ اس حکومت نے 11 مہینوں میں لیا ہے، عوام کو اپوزیشن سے بہت توقعات ہیں، اگر قابل عمل لائحہ عمل عوام کے سامنے نہ رکھا تو مایوسی بڑھے گی، میں تجویز دیتی ہوں کہ نیب کی قید میں تمام اسیروں کو سیاسی قیدی قرار کیا جائے تحریک انصاف کے لئے انصاف کا ایک ترازو ہے اور اپوزیشن کے لئے دوسرا، ہم ایسے احتساب کے آگے کیوں جھک رہے ہیں۔ اگر مسلم لیگ (ن) پنجاب سے، پیپلزپارٹی سندھ سے، مولانافضل الرحمٰن اور اے این پی پختونخوا سے اور بلوچستان سے نیشنل پارٹی اور اچکزئی آکر اسلام آباد بند کردیتے ہیں تو اس پر بھی بات ہونی چاہیے۔