ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا!!!

0
444
پیر مکرم الحق

حال ہی میں قومی اسمبلی کا اعتماد کھونے والے وزیراعظم جو اب سابق ہوچکے ہیں انہوں نے اس افسوس یا پچھتاوے کا اظہار کیا اگر انہیں جسٹس قاضی فیض عیٰسی کے خلاف ریفرنس نہیں بھیجنا چاہئے تھا۔کیا کردار ہے ایسا غلط کام کرتے ہوئے جھجھک نہیں ہوئی کیونکہ اس وقت اپنی کرسی بچانی تھی اسی لئے ایک عزت دار انسان کی عزت اچھال دی اور مدد افسوس کہ اب بھی جو پشیمانی ہے اس کے پیچھے بھی خلوص نہیں بلکہ انتقام کی آگ ہے۔کیونکہ جن کے کہنے پر ریفرنس دائر کیا تھا انہوں نے فارغ کردیا اسلئے اب آپ نے اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے پیغام پہنچا دیا ہے کہ اب تک تو صرف غلطی کا اعتراف کیا ہے اب میں نام بھی لونگا کہ کس کے کہنے پر ریفرنس بھیجا تھا۔اور دوسرے رازوں سے بھی پردہ اٹھاونگا۔لیکن پھر بھی عمران کو اقتدار میں لانے والے تجربہ بدلنے والے والوں کو ایک سبق تو سکھایا کہ ہر چمکنے والی چیز سونا نہیں ہوتی آنے والا وقت بہت سارے راز کھول دے گا۔آج تو یہ ثابت ہوگیا کہ قاضی فیض عیٰسی اور انکے خاندان کو جس طرح ہراساں کیا گیا تھا اور بے بنیاد الزام لگائے گئے تھے وہ سراسر غلط تھا اور سابق وزیراعظم نے اس معمہ کو تو حل کردیا۔ماضی میں راقم نے اس موضوع پر کچھ کالم بھی تحریر کئے تھے۔اور بہت سارے صحافی حضرات نے جسٹس قاضی عیٰسی کا دفاع کیا تھا۔سابق وزیراعظم کے اس اعتراف کے بعد ایوان صدر میں بیٹھے ڈاکٹر عارف علوی کو بھی اس جرم میں شریک ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے عہدے سے مستعفی ہو کر اس جرم کاکفارہ ادا کرنا چاہئے۔ویسے بھی یہ رمضان کا بابرکت مہینہ ہے ایک بااصول مصنف پریشان تراش کرکے جو انکی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی جو ناکام کوشش میں شریک جرم ہونے کے جرم کا ازالہ اگر اس دنیا میں ہو جائے تو یہ سودا مہنگا نہیں ورنہ ڈاکٹر علوی صاحب روز قیامت آپ کی پکڑ ہوگی ویسے بھی سابقہ حکومت کی سبکدوشی کے بعد اس صدارت کی کرسی پر براجمان رہنے کا اب کوئی اخلاقی جواز نہیں رہا۔افسوس کی بات ہے کہ آج کل نہ صرف پاکستان میں بلکہ بیرون ملک میں سیاسی اختلاف کو پڑھے لکھے لوگ بھی ذاتی اختلاف سمجھنے لگے ہیں۔ارے بھئی ہر کسی کو حق ہے کہ وہ کسی سیاسی نظریے سے اختلاف کرے یا اتفاق کرے کسے یہ حق نہیں کہ وہ اختلاف رائے رکھنے والے سے بدتمیزی کرے اور گالم گلوچ پر اتر آئے۔لیکن بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ سوشل میڈیا پر تو جو گند اب پیدا ہوگیا ہے کہ طبیعت خراب ہوجاتی ہے کہنے کو مسلمان اور مہینہ رمضان کا جو گندی زبان استعمال کی جاتی ہے اللہ کی امان۔سیاست میں پہلے بھی اختلاف رائے تو پہلے بھی ہوتی تھی لیکن کبھی اتنی غلاظت نہیں تھی جتنی اب ہوگئی ہے مہربانی بھی تحریک انصاف کے ٹرولرز کی ہے۔جنرل نے عدم برداشت اور ملکی سیاست میں گالیوں کا عنصر متعارف کروایا ہے۔لوگوں میں ہاتھا پھائی کا بھی آغاز ہوگیا ہے۔پچھلے دنوں زندہ دلان کے شہر لاہور میں ایک میجر حارث پر کھلاڑیوں کے ایک گروہ نے حملہ کردیا میجر صاحب تراش ہیں کل جنرل باجوہ نےCMHلاہور میں انیک عیادت کی۔فوج کے خلاف سوشل میڈیا پر غلیظ الفاظ کے استعمال پر لاہور اسلام آباد سے سینکڑوں ٹرولرز ایف آئی اےFIAنے گرفتار کئے ہیں۔اور سائبر کرائم کے علاوہ ان پر ریاست دشمنیANTISTATEجرائم پر مقدمات درج کئے گئے ہیں۔پیشہ ور ٹرولرز ہیں جنہیں یہی کام سونپا گیا تھا کہ دبا کر فوج کی لیڈر شپ کے خلاف گندی زبان کا استعمال کیا جائے۔ان گرفتارملزمان نے پولیس کی پوچھ گچھ میں بیان دیا ہے کہ انکے ہینڈ الرز میں شہباز گل اور فرخ حبیب سب سے زیادہ محرک تھے۔اور شو مئی قیمت دیکھئی شہباز گل جو اس سارے معاملے میں سرغنہ کا کردار ادا کر رہے ہیں۔وہ بھی امریکہ سے آئے ہوئے انکے علاوہ آٹھ اور وزراء بھی امریکا سے ہی آئے تھے اگر امریکہ آپ کے خلاف سازش کر رہا تھا تو آپ کی انحصار ان نو(9)ستاروں پر کیوں تھا۔جنہیں امریکا سے بھرتی کرکے لائے تھے۔اب بھی ٹرولرز اور سوشل میڈیا کے ذریعے فوج کیخلاف زہریلا مواد سوشل میڈیا پر پھیلانے کے خلاف تمام ایجنسیاں اب تندسی سے ان لوگوں پر نظر رکھے ہوئے ہے اور گرفتاریاں بھی جاری ہیں یہ کرائے کے لوگ زیادہ عرصہ اس دبائو کو برداشت نہیں کر پائیں گے تو سوشل میڈیا کا ایک بڑا گروہ جو اس تحریک کا ستون بھی ہے وہ تو جلد ہی ڈھا دیا جائیگا۔اصل پریشانی کی بات ہے کہ فوج کے کافی ریٹائرڈ لوگ بھی اس خطرناک سازش کا انحانے میں حصہ بن گئے تھے اور وہ خود اپنے ہی ادارے کا ڈسپلن خراب کرنے میں آلا کار بن رہے تھے جس کو کافی حد تک کنٹرول کرلیا گیا ہے۔فوجی لوگ اتنی سیاسی سوجھ بوجھ نہیں رکھتے انہیں سوشل میڈیا کے ذریعے ورغلانہ کی کوششیں بھی ہوئیں ہیں۔
عوام کو بھی بری طرح سے تقسیم کیا گیا ہے سیاسی مباحثہ میں گرما گرمی گھر گھر کی کہانی ہے پہلے سے بٹا ہوا پاکستانی معاشرہ مزید تقسیم کا متحمل نہیں ہوسکتا۔پچھلے دنوں حطار انڈسٹریل اسٹیٹ ٹیکسلا میں دو دوستوں میں سیاسی مباحثہ جھگڑے کا رخ اختیار کر گیا اور عتیق نامی شخص جو تحریک انصاف کا کارکن بتایا جاتا ہے اپنے قریبی دوست مسلمان کو لوہے کی سلاخ(ROD)مار کر شدید زخمی کردیا جسے قریبی ہسپتال میں لے جایا گیا جہاں زخموں کا تاب نہ لاسکا اور چل بسا۔قاتل عتیق کو پولیس نے حراست میں لے کر مقدمہ قائم کیا ہے۔یہ واقعہ حطار میں موجود وولٹا بیٹری کمپنی میں پیش آیا ہے۔صورتحال ملک کیلئے خطرناک ہوسکتی ہے سیاسی اختلاف کو ایک حد میں رکھنا ضروری ہے پاکستان کیلئے لوگوں سے گزارش ہے کہ عدم برداشت کا راستہ اختیار نہ کریں اور تعلیم یافتہ نوجوانوں سے التماس ہے کہ کسی کے سیاسی عزائم کی خاطر خود کو تقسیم مت کریں۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here