لاکھوں کروڑوں درود و سلام اُس ذات والاصفاتۖ پر کہ جس کی خاطر رب ذوالجلال نے یہ کائنات تخلیق کی، جو رحمت المسلمین ہی نہیں رحمت اللعالمین بھی ہیں۔ سردار انبیائۖ و مرسلین اورہمارے ایمان کا جزو لازم ہیں۔ محبوب رب العالمین پر ہماری، ہمارے والدین، اولادوں کی جانیں قربان ہیں۔ اس ہادیٔ برحقۖ کی شان میں مودی بدذات و اسلام دشمن کے دو کتوں نے مسلم دشمن زہر اُگلتے ہوئے جس گُستاخی کی مذموم حرکت اور بیان بازی کی ہے اس سے ساری مسلم اُمہ سراپا احتجاج ہے اور ساری اسلامی دنیا نے شدید رد عمل دیا ہے سعودی عرب سے پاکستان تک بلکہ دنیا بھر میں مسلم قائدین، رہنمائوں، امہ نے مودی کے حکمرانی کے ساتھیوں کے گستاخانہ توہین آمیز کلمات پر نبی محترمۖ سے اپنی نسبت و عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے سرکاری و نجی سطح پر شدید احتجاج کیا اور گستاخی کے مرتکب شیطانوں کو قرار واقعی انجام کو پہنچانے کا مطالبہ کیا ہے۔ پاکستان میں سرکاری سطح پر، پارلیمان و سیاسی عوامی سطح پر احتجاج و مظاہرے ہو رہے ہیں لیکن حیرت کی بات ہے کہ توہین گستاخی رسولۖ پر فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کے مطالبے اور مظاہروں کی حامل تحریک لبیک بھارتی حکومتی ترجمانوں کی گستاخی رسولۖ کے اقدام پر چُپ سادھے ہوئے ہے۔ یہ دو رُخی بہت سے سوالات کو جنم دے رہی ہے، عقلمند قارئین کیلئے اشارہ ہی کافی ہے۔
مودی سرکار نے تو مسلم قیادت اور عالمی رائے عامہ کے دبائو سے نکلنے کیلئے ذمہ داروں کی برطرفی و پارٹی سے نکالنے کی لیپا پوتی کر دی ہے حالانکہ مسلم و اقلیتی دشمنی بی جے پی کے آغاز سے ہی اس کا ایجنڈا اور ہندتوا راج اس کا مقصد ہے اور اس کے واضح مظاہر پاکستان دشمن و مسلم کشی کی صورت میں موجود ہیں۔
اسلاموفوبیا اور مسلم دشمنی کا فتنہ وقتاً فوقتا سر اُٹھاتا رہتا ہے، 52 سے زیادہ اسلامی ممالک کی جانب سے احتجاج کیاجاتا ہے، قراردادیں پاس کی جاتی ہیں لیکن اس فتنے کی سرکوبی نہیں ہو پا رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام اسلامی ممالک اور سربراہان اپنے مفادات اور عالمی قوتوں کے دبائو کے سامنے مجبور نظر آتے ہیں۔ تفصیل میں جانے سے گریز کرتے ہوئے وطن عزیز کے موجودہ حالات پر ہی نظر ڈالیں تو ہمارا مذکورہ تجزیہ اس حقیقت کو آشکار کرتا ہے۔ پاکستان کا سیاسی منظر نامہ یوں تو کبھی بھی خوشگوار اور مثالی نہیں رہا لیکن گزشتہ تقریباً دس ماہ میں وطن عزیزجن حالات و واقعات سے دوچار رہا، اس کا پس منظر اس کی نشاندہی کرتا ہے کہ موجودہ حالات از خود نہیں ہوئے بلکہ بوجوہ پیدا کئے گئے ہیں۔ ہم وقتاً فوقتاً ان پر اپنی رائے و معروضات بھی پیش کرتے رہے ہیں لیکن غالباً ہمارے فیصلہ ساز اور ذمہ داران بھی عالمی دبائو یا مفاد کے سامنے بے بس نطر آتے ہیں کہ موجودہ سیاسی و معاشی بحران کا کوئی حل نکل سکے۔ سچ تو یہ ہے کہ موجودہ حکمران اتحاد بھی عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار حاصل کر کے بھنور میں پھنس چکا ہے۔ سیاسی ابتری، آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کیلئے پیٹرول کی قیمت میں دو ہفتے میں 60 روپے کے اضافے، اشیائے ضرورت کے نرخ کا آسمان سے باتیں کرنا، بجلی کے ٹیرف بے تحاشہ کر کے کرنٹ لگانا، لوڈ شیڈنگ کی تاریکیوں میں عوام کا غیض و غضب اور غیر ممالک کے دوروں پر قومی دولت کے اسراف کیساتھ سزا یافتہ بیٹوں کی سرکاری اجلاسوں میں شرکت نے نہ صرف موجودہ وزیراعظم کی عوامی مقبولیت کو دھڑام کر دیا ہے بلکہ موصوف خود بھی پریشان و ہلکان ہیں اور وسیع تر ڈائیلاگ پر اُتر آئے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عمران خان کیخلاف عدم اعتماد کا تماشہ کسی سوچ یا منصوبے کے بغیر محض اقتدار کے حصول کیلئے تھا، شریف خاندان میں دو وزرائے اعظم اور تین وزرائے اعلیٰ پنجاب کا ریکارڈ بنانا تھا یا پھر وہ مقصد تھا جس کا ابلاغ اور بیانیہ سابق وزیراعظم عمران خان کر رہے ہیں۔ اگر پی ڈی ایم یا شریفوں کا مطمع نظر اقتدار کا حصول تھا تو ڈیڑھ سال کا انتظار کیوں نہ کر سکے کہ موجودہ معاشی و سیاسی بدحالی و غیر مقبولیت کا شکار نہ ہوتے۔ حالات کا تجزیہ تو اس حقیقت کو بیان کرتا ہے کہ دال میں کالا کہیں ضرور تھا اور اس میں کچھ پردہ نشینوں نے بھی اپنا کردار ادا کیا۔ اگر اس ساری صورتحال کا اجمالی جائزہ لیا جائے تو عمران خان کی حکومت کے ختم کئے جانے میں محض پی ڈی ایم کا ہی کردار نہیں بلکہ اس میں ریاستی، انتظامی و دیگر اہم ذمہ داران کسی نہ کسی حوالے سے واقف راز رہے۔ اگر ہم فرض بھی کر لیں کہ عمران خان کا سازش کا بیانیہ درست نہیں اور وہ اپنی سیاسی مقبولیت و عوامی دبائو بڑھانے کیلئے یہ نعرہ لے کر چل رہے ہیں تو پاکستان کے سب سے منظم، مستحکم و مدون اور قابل ادارے کے سابقین (ایکس سروس مین) کی نہایت رکاوٹوں و مشکلات کے باوجود اسلام آباد میں میڈیاکانفرنس کر کے عمران خان کے مؤقف کی حمایت و توثیق، فوج کے سربراہ سے کئے ہوئے وعدے کی تکمیل، الیکشن کمیشن کے غیر سیاسی کردار کے مطالبات کی کیا وجوہ ہیں۔
ہم نے اپنے گزشتہ کالم میں ایک درخواست کی تھی کہ معاملات کا حل دلیل میں ہے، عدم برداشت میں نہیں۔ محاذ آرائی معاشرے، قوم، خاندان حتیٰ کہ خود اپنی فطرت کی تقسیم یا پراگندگی پر منتج ہوتی ہے اور اس کے اثرات کا بھگتان ملک اور قوم کیلئے مہلک اور کمزوری کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ اس وقت جو سیاسی چشمک اور گولہ باری بالخصوص موجودہ حکمرانوں (خصوصاً شریفوں) اور کھلاڑیوں میں جاری ہے اس میں دلیل یا ڈائیلاگ کی کوئی گنجائش بظاہر نظر نہیں آتی۔ شہباز شریف کی وسیع البنیاد ڈائیلات کی پیشکش پر کھلاڑیوں کا پہلے الیکشن، بعد میں ڈائیلاگ کا واضح مؤقف ظاہر کرتا ہے کہ حالات کی بہتری کا واحد راستہ فوری انتخابات کا انعقاد ہے۔ سابق عسکری عہدیداران کی میڈیا کانفرنس، عوام پر معاشی بوجھ، عالمی اداروں خصوصاً IMF کا دبائو ارو عوام میں بڑھتی ہوئی بے چینی و قومی رحجان سے لا تعلقی اس امر کی متقاضی ہیں کہ ریاست کے تمام ذمہ داران کو ایک جہت پر لایا جائے اور فیصلہ ساز ان اقدامات کو بروئے کار لائیں جو پاکستان کو موجودہ بگڑتی ہوئی صورتحال سے نکال سکیں نیز عوام کے جذباتی تقاضوں کی تکمیل بن سکیں۔ یہ ملک ہے تو سیاست بھی ہوگی، قیادت، سیادت و حفاظت بھی اور ملک و عوام خوشحالی سے بہرہ مند ہو سکیں گے۔
یہی ہے راستہ ہم سب کی بہتری کے لئے
انا زہر ہے محبت و راستی کے لئے
٭٭٭