محترم قارئین کرام آپ کی خدمت میں سید کاظم رضا کا سلام پہنچے !
آج کل مملکت پاک کے جو حالات ہیں سب کے سامنے ہیں ان مسائل پر بات کون کریگا صرف ہم لوگ کیونکہ ملک ہمارا ہے اور ملکی مفادات سے نسلوں کا مستقبل وابستہ ہے جانے والی حکومت کے بعد نہ حکومت آئی ان کی کارکردگی ایک طرف جو کررہے ہیں وہ صرف خود کو ہر جرم سے آذاد اور سزا سے بچنا جس میں ہر کوئی لوٹ مار کرکے وہی سرمایہ لگا کر بچ رہا ہے پولیس اسٹیشن ہو یا عدالت ہو یا کوئی اور دفتری کام رشوت دیئے بغیر ہوتا ہی نہیں !!!
حکومت نے خود کو مقدمات سے بچانے کیلئے جو قانونی ترامیم کیں وہ مندرجہ زیل ہیں !ئی حکومت کے ملزموں اور وکیلوں کی اپنے کیسوں کو سامنے رکھ کر نیب قوانین میں ترامیم۔۔ پڑھئے اور سر دھنیے پہلی ترمیم۔۔ پہلی ترمیم کے مطابق نیب قوانین میں جتنی ترامیم ہوں گی وہ یکم جنوری1985سے لاگو ہوں گی،باقیوں کے علاوہ اس ترمیم سے سب سے زیادہ فائدہ90کی دہائی سے لیکر اب تک شہباز فیملی کو ٹی ٹی کیسوں میں ہوگا۔۔ دوسری ترمیم۔۔ اس ترمیم کے بعد اب ملزم کے اہلِ خانہ مطلب گھروالوں کے اثاثے ملزم کے اثاثے تصور نہیں ہوں گے۔۔ وہ تمام ملزمان جنہوں نے اپنے بیوی،بچوں،رشتہ داروں کے نام پر جائیدادیں بنا رکھیں ان سب کی موج ہوگئی۔۔ تیسری ترمیم۔۔ اس ترمیم کے بعد کسی ملزم کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اسکے اثاثہ جات جائز بلکہ ناجائز دولتوں،کرپشن سیبنائی جائیدادوں مطلب ناجائز اثاثوں کو ناجائز ثابت کرنا نیب کاکام۔۔اب نیب ثابت کرتا رہے قیامت تک! چوتھی ترمیم۔ ملزم کی جائیدادوں کی قیمت مارکیٹ ریٹ کی بجائے ڈی سی ریٹ کے مطابق ہوگی،مطلب جائیداد ایک لاکھ کی،ڈی سی ریٹ ایک ہزار کا،اس سے اربوں کی جائیدادیں کروڑوں کی ظاہر کرکے ملزمان پتلی گلی سے نکل جائیں گے۔ پانچویں ترمیم۔۔دورانِ کیس ملزم اپنی کرپشن سے بنائی جائیداد مطلب متنازعہ جائیداد بیچ سکتا ہے،پہلے نیب کی اجازت کے بغیر جائیداد بیچی نہیں جاسکتی تھی،اب ایک طرف جائیداد پکڑی گئی دوسری طرف ملزم جائیداد بیچ کر فارغ۔۔ چھٹی اور سب سے مزے کی ترمیم۔۔اگر نیب کیس ثابت نہ کر پایا تو متعلقہ نیب افسر کو 5 سال قید کی سزا،اب اسکے بعد کون سا بیوقوف اور پاگل نیب افسر ہوگا جو کسی طاقتور پر کیس بنائیگا ؟ یہ آرٹیکل دھندے بچائو ایک طرف جبکہ حکومت میں اشرافیہ جس کا دفتر آنے جانے کا کوئی وقت نہیں حاضری گھر سے بھی لگ جاتی ہے، دنیا کی بہترین نوکری سرکاری پاکستانی نوکری ہے جس میں احتساب صرف ایمان داری سے کام کرنے والے کا ہوتا ہے اگر آپ راشی ہیں یا چور ہیں تو کوئی مسئلہ نہیں کرائم منسٹر ٹیم کے ہی پیٹی بھائی ہوئے !! اب زرا سرکاری افسران کی عیاشیاں اور مراعات دیکھیں گزشتہ صدیوں میں پیدا ہونے والے مسلمان بادشاھ بھی اتنی مراعات نہیں اٹھا سکے اور مزے جو ان لوگوں کے ہیں !!
دیہاڑی دار اپنی کمائی سے 210 روپے لیٹر پٹرول خریدیگا تو ماہانہ لاکھوں روپے قومی خزانے سے لینے والے صدر، وزیراعظم وزیر اعلیٰ، وزرا، آرمی، افسران ،ججز ،بیوروکریٹ کو بھی مفت پٹرول ملنا بند ہونا چاہئے اگر معیشت کو بہتر کرنا ہے اور آئی ایم ایف کی ذلالت سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے اس اشرافیہ کو ملنے والی سبسٹڈی ختم کرنا ہو گی۔
>اگر پاکستان میں 20000 افراد کو پٹرول فری کی سہولت میسر ہے اور اگر ایک آفیسر ماہانہ 400 لیٹر پٹرول استعمال کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ حکومت کو ماہانہ 80لاکھ لیٹر پٹرول فری دینا پڑتا ہے جس کو خریدنے کیلئے ماہانہ تقریبآ 50لاکھ ڈالر درکار ہوں گے۔
> یہ ہے وہ ناسور جو ملک کو IMF کے چنگل سے آزاد نہیں ہونے دیتا۔
> تمام سیاسی پارٹیوں سے وابستگی اپنی جگہ لیکن اب یہ،
> ملک کی اشرافیہ کا فری پٹرول بند ہونا چاہیئے۔
> ملک کی اشرافیہ کا فری بجلی کے یونٹ بند ہونے چاہیئں۔
> ملک کی اشرافیہ کے فری ہوائی ٹکٹ بند ہونے چاہیئں۔
> ملک کی اشرافیہ کا یورپ و امریکہ میں فری علاج بند ہونے چاہیئں۔
> ملک کی اشرافیہ کے حکومتی کیمپ آفس ختم ہونے چاہیئں۔
> ملک کی اشرافیہ کو 6، 8،10 کنال کے گھر الاٹ ہونے بند ہونے چاہیئں۔
> تمام سرکاری گاڑیاں نیلام ہونی چاہیئں اگر ایک سے 16اسکیل کا ملازم اپنے تمام اخراجات تنخواہ میں پورے کرتا ہے تو تمام ملازمین کو اپنے اخراجات اپنی تنخواہ سے پورے کرنے چاہیئں۔ یقین کریں تمام سرکاری گاڑیاں ویک اینڈ پر نادرن ایریاز میں سیر وتفریح کر رہی ہوتی ہیں۔ غریب قوم کے پیسے سے۔
> اب اگر قوم احتجاج نہ کرے اور آواز نہ اٹھائے تو ملک و قوم کا اللہ ہی حافظ آپ اس میسج کو شیئر کریں۔ اور لوگوں کو آگاہی دیں تاکہ اس بات پر ہر بندہ آواز اٹھا سکے شکریہ
٭٭٭