محترم قارئین کرام آپ کی خدمت میں سید کاظم رضا کا سلام پہنچے اس اخبار کے توسط سے آپ سے اظہار خیال کا موقع مل جاتا ہے بہت سی علمی گفتگو ہوجاتی ہے اور بہت سی توہمات دور ہوجاتی ہیں آج کا موضوع علم نجوم پر روشنی ڈالنا ہے جس پر بحث گاہے بگاہے چلتی ہی رہتی ہے ! زمانہ قدیم میں علم نجوم اور علم سحر کی طرف لوگوں کا عام رجحان رہا ہے وہ ان علوم کو دوسرے علوم پر ہمیشہ فوقیت دیتے تھے اور ترجیحی نگاہ سے دیکھتے تھے، کلدانیوں ، سریانیوں ، اور قبطیوں کو ان علوم میں نسبتا زیادہ کمال حاصل تھا دراصل انہی قوموں سے یہ علوم و فنون یونانیوں اور پارسیوں وغیرہ نے حاصل کیے تھے، قرآن مجید فرقان حمید میں بھی کچھ ایسے واقعات پر روشنی موجود ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ پہلے زمانہ میں علم سحر کافی عروج پر تھا، بڑے بڑے ساحر جگہ جگہ موجود تھے جو اپنی فنکارانہ اور علمی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرکے لوگوں کو مبہوت کر ڈالتے تھے۔ بعض ممالک میں تو لوگ ان کی ہولناک حرکتوں سے اس قدر عاجز آگئے تھے کہ ان کے لئے سلامتی کے ساتھ زندہ رہنا مشکل ہو گیا تھا تنگ آمد بجنگ آمد ، پھر یہ ہوا کہ پریشان حال لوگوں نے منصوبہ بند طریقوں سے ساحروں کو قتل کرنا شروع کر دیا یہی نہیں بلکہ حکومتی سطح پر بھی ان کو سزائے موت کی سزا دی گئی اور ان کے علمی ذخیروں کو دریا برد کردیا گیا تاہم کچھ نہ کچھ باقی رہ گیا سب کا سب ظائع نہیں کیا جا سکا ، عظیم مورخ ابن خلدون لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کو فتوحات کے نتیجے میں مختلف ممالک سے اہم نوادرات کے علاوہ فلسفہ و حکمت ، ریاضی اور سحری علوم کا ذخیرہ مگر ملا ہے مگر چونکہ شریعت اسلامی نے خاص طور پر علم سحر کو حرام قرار دے دیا تھا اور ساحروں کے لیے سخت ترین عذاب کی بات کہی تھی اس لیے مسلمانوں نے اس کی طرف کوئی توجہ نہیں دی بلکہ اس کو شدید نفرت اور حقارت کی نظر سے دیکھا اور یونانی علوم کے تراجم کرتے وقت بالقصد اس علم کو نظر انداز کردیا اس لیے وہ ذخیرہ بھی جو غیر مرتب صورت میں حاصل ہوا تھا رفتہ رفتہ ضائع ہوتا گیا یا ضائع کردیا گیا صرف مسلمانوں ہی نے نہیں بلکہ دوسرے لوگوں نے بھی سحری علوم کو ختم کر ڈالنے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود یہ علم کسی نہ کسی درجہ میں پھر بھی باقی رہ گیا اور آج تک سینہ بہ سینہ چلا آ رہا ہے۔مسلمانوں نے سحر کو چھوڑ کر باقی بہت سے علوم و فنون پر لکھی گئی کتابوں کے تراجم کئے جیسے مصاحف کواکب سبعہ اور طمطم ہندی وغیرہ ، علم نجوم علم ریاضی اور حروف و اعداد پر مشتمل کتابوں کے تراجم تو کافی اہتمام سے کیے گئے ہیں۔ مسلمانوں نے صرف کتابوں کے تراجم پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ ان پر غوروفکر بھی کیا ہے اور حد جواز کی پوری رعایت کے ساتھ مستقل کتابیں بھی تصنیف کی ہیں ، جابر ابن حیان نے حروف و اعداد پر کئی کتابیں لکھی ہیں ، مسلمہ ابن احمد المجر یطی نے جو اپنے دور میں علم ریاضی کا ماہر تھا ریاضی سے متعلق اہم مسائل کا خلاصہ کیا اور غایت الحکیم کتاب لکھی جس کی افادیت کو ہر دور میں محسوس کیا گیا ، امام فخر الدین رازی کی اس سلسلے میں مشہور ” سر مکتوم ” نامی کتاب موجود ہے ۔ “فلاحتہ البطنیہ ” یہ علم نباتات کی ایک ضخیم اور اہم کتاب تھی اس میں جہاں بیانات کی روئیدگی ، نشوونما ، ان کی بیماریوں کے علاج اور بچوں کے سلسلے میں مفیدترین بخشیں تھیں ، وہیں سحر سے متعلق چند ابواب بھی تھے کہتے ہیں کہ ان ابواب میں سحر کرنے کے طریقے ، اوقات اور اس کو زیادہ سے زیادہ زود اثر بنانے کی تراکیب درج تھیں لیکن مسلم علما ان ابواب کا ترجمہ نہیں کیا بلکہ چھوڑ دیا۔
حضرات صوفیا کا دور شروع ہوا تو انہوں نے حصول معرفت اور غرق عادت قوتیں حاصل کرنے کی کوششیں کیں اس مقصد کے لیے سخت ترین ریاضتیں کی گئیں، نفسانی خواہشات کو ترک کرکے روحانی کمالات حاصل کئے گئے ، اور شعور و حواس کے حجابات سے ماورا ہوکر عجیب و غریب سریع الاثر طاقتیں حاصل کیں اور اس کے نتیجہ میں وہ حضرات حروف و اعداد کے اسرارور موز سے آگاہ ہونے میں کامیاب ہوگئے، حضرت شیخ ابو العباس احمد بن علی بونی کی اس فن میں تقریبا پچاس کتابیں ہیں جن میں سب سے مشہور شمس المعارف اور لطائف الاشارات وغیرہ ،بہرکیف حروف کے اسرارور موز دریافت کرنے کی جو کوششیں کی گئی ہیں ،ان کا ماحاصل یہ ہے کہ ارواح فلکی اور طبائع کوکئی مظاہر قدرت ہیں جن کے پیچھے خداوند قدوس کی عظیم حکمتیں کارفرما ہیں ، اسرار حروف تمام اسما الٰہی اور کلمات الٰہیہ کے ذریعہ جن پر پراسرار حروف مقطعات بھی شامل ہیں ، عالم طبیعت میں تصرف کرنے میں کمال حاصل کیا اور اپنی روحانی قوتوں سے کام لے کر حروف کی ان پوشیدہ طاقتوں کا سراغ نکالا جو دراصل حروف کی باہمی امتزاج ، عناصر اور اثرات فلکی سے مل کر عالم ارضی میں التصالی اور التصالی تصرف پیدا کرتی ہے۔
اب رہا یہ سوال کہ تصرف محض حروف کی طبائع کے مرہون منت ہے یا اس کا سبب کچھ اور ہے ؟ اس سلسلہ میں ایک قول تو یہ ہے کہ حروف اپنی عنصری طبائع کے ذریعہ ہی کام کرتے ہیں، دوسرا قول یہ ہے کہ حروف جو کچھ کرتے ہیں وہ نسبت عردی کی وجہ سے کرتے ہیں اس قول کے مطابق نسبت عردی مثر و متصرف ہے،حقیقت حال جو بھی ہو بہرحال حروف واعداد کا باہمی ایک زبردست تعلق ہے بالکل ایسا ہی تعلق جیسا جسم و روح میں پایا جاتا ہے اس لئے حروف کی قوتیں اور ان کے اثرات معلوم کرنے کی کوشش کی گئی اور پھر ان کو زیادہ سرئع بنانے کے لیے عداد کی طرف متوجہ مبذول کی گئی۔
چنانچہ اس اصول کو سامنے رکھ کر حیرت انگیز طور پر کام لیے گئے اور اعداد کی مناسبت سے ان کی باہمی نسبت وتالیف کا پتہ لگایا گیا یہی بنیادیں ہیں جن پر علم جفر اور تعویذات کا سلسلہ قائم ہوا اور آج تک قائم ہے، اچھا تو قارئین اجازت دیں باقی باتیں آپ سے ہوتی رہیں گی ۔
٭٭٭