دستور کا مرثیہ!!!

0
155
جاوید رانا

آج جس وقت میں یہ سطور لکھنے بیٹھا ہوں تو ایک جانب یہاں شکاگو میں سٹی کونسل باالخصوص میئر کے انتخاب کا مرحلہ آچکا ہے، دوسری جانب وطن عزیز میں پنجاب و کے پی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد انتخاب کا مرحلہ صوبائی حکومتوں (نگران) سیاسی جماعتوں، رہنمائوں کی ریشہ دوانیوں حتیٰ کہ صدر مملکت کے 9 اپریل کو انتخاب کروانے کے حکم کے بعد اب عدالت عظمیٰ کے از خود نوٹس کے مرحلے تک پہنچ گیا ہے۔ چیف جسٹس کے ریمارکس ”آج آئین عدالت پر دستک دے رہا ہے”۔ کے باوجود لارجر بینچ تضادات کی زد میں آچکا ہے۔ موجودہ حکومتی ٹولے کی بینچ کی تشکیل کی مخالفت تو حسب معمول اپنی جگہ، خود بینچ کے معزز اراکین کے درمیان سینئر ججز کی عدم شمولیت دو منصفین کی بوجوہ بینچ میں شمولیت پر تحفظات اور آئینی و قانونی حوالے سے اعتراضات کی اختلافی خلیج نے سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ وہ بات الگ کہ چیف جسٹس نے چار ججز کے بینچ سے دستبرداری کے باوجود پانچ رکنی بینچ کے سماعت جاری رکھنے کا فیصلہ کر دیا ۔ اور فائنڈنگ دیدی۔
سوچنے کی بات ہے کہ انتخابی عمل کے سیدھے سادھے مسئلے کو آخر کیوں اس قدر اُلجھایا جا رہا ہے؟آئین و الیکشن قوانین کی رُو سے اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد 90 روز میں انتخابی عمل کا اقدام لازمی ہوتا ہے لیکن موجودہ حکومتی ٹولے کو یقین ہے کہ عمران کی مقبولیت اور عوامی حمایت کے باعث شکست ہی اس کا مقدر بننی ہے۔ یہ ایک حقیقت بھی ہے اور اس کا تازہ ترین ثبوت اتوار کو جنوبی پنجاب میں ضمنی انتخاب میں پی ٹی آئی کی کامیابی ہے۔ اس چکر میں حکومتی اشرافیہ باالخصوص نواز لیگ مختلف قانونی و آئینی شگافیوں اور عمران مخالف زہر افشانی تو کر ہی رہی ہے، اس زہریلے پروپیگنڈے میں اب عدلیہ اور حق سچ کہنے والوں کو بھی لپیٹنے کی حرکات کی جا رہی ہیںَ ایسے مظاہر سامنے آرہے ہیں جن کا نہ کوئی جواز بنتا ہے نہ کوئی سر پیر ہوتا ہے۔ شکست کا خوف ن لیگ کی رگوں میں اس طرح رچ بس چکا ہے کہ نہ عدالت عظمیٰ کے معزز ججوں کو ہدف بنانے سے گریز ہے اور نہ جنرل (ر) امجد شعیب جیسے بزرگ اور حقیقت پر مبنی تجزیہ و تبصرہ کرنے والے کو بخشا جاتا ہے۔ جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس سجاد الاحسن پر الزام تراشی، جنرل امجد شعیب کی بغاوت کے الزام میں گرفتاری اور مریم نواز کی ورکرز کنونشن میں عدلیہ کو دھمکیوں اور انتخابات کے انعقاد کیلئے ہرزہ سرائی کہ الیکشن نواز شریف کی آمد و مرضی سے اورانہیں انصاف فراہم کرنے کے بعد ہونگے ایسے اقدامات ہیں جو نہ صرف ن لیگ کی شکست وریخت کا خوف کا اظہار ہیں بلکہ جمہوریت کے تسلسل اور دستور کیلئے خطرناک ہیں۔ عدلیہ کیخلاف بکواس کرنے پر لاہور ہائیکورٹ میں توہین عدالت کا نوٹس جاری کرنے کا معاملہ درپیش ہے، اب آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟
عدلیہ اور عدالتوں کیخلاف نواز لیگ کے کردار کی تاریخ کبھی بھی مثبت نہیں رہی ہے۔ 90ء کی دہائی میں سپریم کورٹ پر حملہ، خود ساختہ جلا وطنی سے واپسی پر اپنی سزائیں و مقدمات ختم کرانے اور مخالفین کیخلاف ضمیر خریدنا ان کا معمول ہے۔ اپنے خلاف فیصلوں پر عدلیہ پر کیچڑ اُچھالنے کا سلسلہ نواز لیگ آج بھی جاری رکھے ہوئے ہے، یہ رویہ عدلیہ تک ہی محدود نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کو بھی نہیں بخشا جاتا ہے۔ اپنے مفاد اور غرض کیلئے آئین کے حوالے سے سفید کو سیاہ اور سیاہ کو سفید بنانے کا یہ سلسلہ اب دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی اپنا لیا ہے جو کسی بھی جمہوریت اور مملکت کے حق میں نہیں ہو سکتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال منگل کو جوڈیشل کمپلیکس میں پی ٹی آئی کے کارکنوں کی چڑھائی کی صورت میں سامنے آئی۔ ہماری تشویش یہ ہے کہ عدلیہ کو وہ کونسی قباحیتیں درپیش ہیں۔ جن کے باعث وہ اپنے خلاف بدترین پروپیگنڈے پرکوئی سخت اقدام کرنے سے گریزاں ہیں۔ اس طرح نہ صرف ان کے مقام و مرتبے اور فیصلوں پر حرف آتا ہے بلکہ آئین وقانون کی حرمت پر بھی اثر پڑ رہا ہے۔ حد تو یہ کہ اعلیٰ ترین عدلیہ کے اراکین میں اختلافات اس آئینی ادارے کے اعتبار کو بھی دھندلا رہے ہیں۔
ہم نے اپنے گزشتہ کالم میں صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے عرض کیا تھا کہ ہمارے سیاسی برزجمہروں اور تجزیہ کاروں نے آئین کو موم کی ناک بنا لیا ہے، اپنے مفاد اور غرض کیلئے اسے موڑتے رہتے ہیں۔ اب حالیہ از خود نوٹس میں چیف جسٹس کا یہ جملہ کہ آئین عدالت سے انصاف کیلئے آیا ہے ہمارے مؤقف کی تصدیق بنتا ہے۔ جمہوری ممالک میں آئین یا دستور مملکت کی اہم ترین دستاویز شمار ہوتا اور مملکت، ریاست کے امور چلانے کی ضمانت سمجھا جاتا ہے۔ دستور کی پاسداری اور تحفظ کی ذمہ داری اور ترمیم و توثیق کا اختیار، قوانین کا نفاذ آئین کے بمطابق مقننہ یعنی منتخب ایوان کا ہوتا ہے، جبکہ تشریح کا فریضہ ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ انجام دیتی ہے لیکن ہمارے وطن میں 1973ء سے قبل دستور کے حوالے سے جو اکھاڑ پچھاڑ ہوتی رہی ہے وہ تاریخ کی بدترین صورت رہی۔ کبھی آمروں نے، اقتدار کے بھوکوں نے اور کبھی غیروں کے مطالبوں پر آئین کی صورت بگاڑی ۔ خدا خدا کر کے ایک متفقہ آئین نے جنم لیا لیکن کبھی اسے معطلی کا سامنا کرنا پڑا اور کبھی اسے محض چند کاغذ کے پرزے قرار دے کر پس پُشت ڈال دیا گیا۔ یہ سال آئین کے نفاذ کی گولڈن جوبلی تو ضرور ہے لیکن کیا جمہوریت کے نام پر اپنے مفاد کا کھیل کھیلنے والوں نے اس کی صحیح روح کے مطابق عمل کیا ہے، ہرگز نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ہمارا سیاسی و ریاستی ڈھانچا جمہوری اصولوں پر اب تک استوار ہی نہیں ہوا ہے۔ جاگیرداری، وڈیرہ شاہی، خاندانی وراثت، سرداری، کاروباری و طاقتور معاشرت نے ملک کو جکڑا ہوا ہے اور اقتدار کے اس بھنور میں عام فرد کیلئے جمہوریت ایک شجر ممنوعہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وطن عزیز حقیقی جمہوریت سے محروم ہے، اور دستور محض ایک کتاب یا زور آوروں کیلئے مفادات کے حصول کا ذریعہ بنا ہوا ہے۔ عوامی حمایت کے حامل قائدین عمران جیسے سیاسی رہنمائوں اور جنرل شعیب و ارشد شریف جیسے دانشوروں اور صحافتی لوگوں کیساتھ نا انصافیوں، قہر اور ظلم و جبر اس حقیقت کی گواہی ہیں کہ دستور و قانون کو معذور و بے اثر کر دیا گیا ہے، اسے آئین کا مرثیہ نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے!۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here