فیضان محدث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

0
86

محترم قارئین! شعبان المعظم کی پندرہویں رات کو شب برات کہا جاتا ہے۔ اس رات میں اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت کا نزول ہوتا ہے۔ اہل اسلام کے لئے یہ رات بڑی بابرکت ہے۔ اس رات میں اہل اسلام کا معمول خاص طور پر عبادت کرنا ہے۔ اپنے گناہوں کی معافی مانگنا ہے۔ قبرستان میں جاکر اہل ایمان کی مغفرت کی دعا کرنا ہے۔ اس ماہ مبارک میں روزے رکھنے کی بہت زیادہ فضلیت ہے۔ اس کے روزے نفلی حیثیت رکھتے ہیں اس زمانہ کا المیہ یہ ہے کہ نفلی عبادت کو بہت زیادہ ترجیح ہے۔ لیکن فرضی عبادت سے بہت زیادہ دوری ہے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک امتحان ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ سال یا چھ مہینوں کے بعد آئیں۔ چند نوافل ایک رات میں ادا کریں اس سے ساری عمر کے پچھلے اور اگلے گناہ معاف ہوجائیں گے۔ لیکن رات گزرنے کے ساتھ ہی غفلت وسستی کا وہی بازار گرم ہوجاتا ہے۔ فرائض نماز ہو یا فرض روزے ہوں سستی کا معاملہ اسی طرح جاری ہوجاتا ہے۔ حالانکہ قرب الٰہی فرض کی ادائیگی کے بعد نوافل کی کثرت کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔
حضور نبی کریمۖ خود بھی اور آپۖ کے صحابہ کرام علیھم الرضوان اور اولیاء نظام علیھم الرضوان نے اسی پر سختی سے عمل کیا باقی یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ شب برات اور دوسری خاص راتوں میں نوافل ادا کرنے کی فضلیت تو بہت زیادہ ہے۔ اس سے کسی طرح بھی انکار نہیں ہوسکتا۔ صلوٰة التسبیح کی فضلیت بہت زیادہ ہے تو اس خاص رات میں تو اور بھی بہت زیادہ ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ صدیقہ کائنات رضی اللہ عنھا کا بیان ہے کہ حضور ۖ روزے رکھتے یہاں تک کہ ہم کہتے کہ اب حضورۖ بغیر روزہ کے نہیں رہیں گے۔ اور پھر آپۖ روزہ رکھنا چھوڑ دیتے۔ یہاں تک کہ ہم کہتے کہ اب آپ ۖ کبھی روزہ نہیں رکھیں گے۔ اور آپ ۖ اکثر شعبان میں بہت زیادہ روزے رکھا کرتے تھے۔(بخاری شریف کتاب الصوم) نسائی شریف میں ہے کہ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے حضورۖ سے عرض کہ میں نے آپ کو شعبان سے سوا سال کے کسی مہینہ میں زیادہ روزے رکھتے نہیں دیکھا۔ تو آپ ۖ نے فرمایا کہ لوگ رجب اور رمضان کے اس درمیانی مہینہ سے غافل ہوتے ہیں۔ حالانکہ یہ ایسا مہینہ ہے کہ جس میں اللہ تعالیٰ کے حضور اعمال لائے جاتے ہیں۔ لہذا میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ جب میرا عمل اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں لایا جائے تو میں روزہ سے ہوں۔(نسائی شریف کتاب الصیام) اللہ کے نبیۖ کے صدقے سب گناہ گاروں کے گناہ بخشے ہوئے ہیں تو پھر آپ کا مقام کیا ہوگا؟ آپ ۖ امت کو ترغیب دلا رہے ہیں کہ میری امت کے غیور افراد اس ماہ مقدس کی عظمت کو سلام کہتے رہیں اور نمازوں کی پابندی کرتے رہیں۔ رات کی عبادت کے ساتھ ساتھ دن کے روزہ کی کوشش بھی کریں۔ اللہ کے نبی ۖ نے ہمیں خواب غفلت میں پڑے رہنے سے منع فرمایا ہے۔ عملی اور مئوثر ترغیب دلائی ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ آپۖ شعبان العظم کے پورے مہینے کے روزے رکھتے تھے۔ مسلم شریف کی ہے کہ حضورۖ چند روز چھوڑ کر سارا ماہ روزے رکھا کرتے تھے۔ یہ روایت پہلی روایت کی تفسیر ہے۔ پورے شعبان سے مراد اکثر شعبان ہے کہا جاتا ہے کہ آسمان کے فرشتوں کے لئے دو راتیں عید اور مسرت کی ہیں۔ فرشتوں کی عید رات برات کی رات یعنی پندرہویں شعبان العظم اور لیلة القدر یعنی رمضان شریف کی ستائیسویں رات یہ ایسے ہی ہے جیسے مسلمانوں کے لئے دو عید کی راتیں ہیں۔ مئومنوں کی دو عید راتیں عیدالفطر اور عید الاضحیٰ کی ہیں۔ امام سبکی رحمتہ اللہ علیہ نے اس مذکورہ قول کی وضاحت میں کہا ہے کہ یہ رات سال بھر کے گناہوں کا کفارہ بنتی ہے جمعرات، ہفتہ کے گناہوں کا کفارہ اور لیلة القدر عمر بھر کے گناہوں کا کفارہ ہوتی ہے۔ یعنی ان راتوں میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا اور یاد الٰہی میں ساری رات جاگ کر گزار دینا گناہوں کے کفارہ کا سبب ہے۔ یہ صغیرہ گناہ ہوتے ہیں باقی اللہ تعالیٰ چاہے تو پہاڑوں کے برابر کبیرہ گناہوں کو بھی معاف فرما دے۔ یہ اس کی اپنے بندوں پر خاص رحمت ہے۔ اسی وجہ سے اس رات کو گناہوں کے کفارہ کی رات بھی کہا جاتا ہے اور زندگی کی رات بھی کہا جاتا ہے۔ منزری نے مرفوعاً یہ حدیث مبارکہ نفل کی ہے کہ جس نے دو عیدیں یعنی دو عیدوں کی راتیں اور شعبان کی پندرہویں رات جاگ کر گزاری تو ایسے دن میں جبکہ تمام دل مر جائیں گے مگر اس انسان کا دل نہیں مرے گا اسے شفاعت کی رات بھی کہتے ہیں۔ کیونکہ حضورۖ سے مروی ہے کہ آپ نے تیرہویں رات اللہ تعالیٰ سے اپنی امت کی شفاعت کی دعا مانگی تو ایک تہائی امت کی شفاعت کی اجازت ملی چودھویں رات میں اجازت مانگی تو دو تہائی امت کی شفاعت کی اجازت ملی پندرہویں رات پھر شفاعت کی اجازت مانگی تو ساری امت کی شفاعت کی اجازت مل گئی مگر وہ شخص جو رحمت الٰہی سے اونٹ کی طرح دور بھاگ گیا ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس رات کی قدر کی توفیق عطا فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here