ڈاکٹر عباسین یوسف زئی سے حمیرہ گل تشنہ تک !!!

0
89
کامل احمر

افغانستان واحد ملک ہے دنیا میں جہاں صدیوں سے خودمختاری اور آزادی کی جنگ لڑی جارہی ہے اور سامراجی طاقتیں پنجہ آزمائی کر رہی ہیں، کھیل جاری ہے پہلے، برطانیہ، پھر روس اور آخر امریکہ سب نے منہ کی کھائی ہے۔ وہاں کی سرزمین(سنگلاخ زمین) میں ایسی کی بات ہے کہ تقریباً ہر دہائی میں کوئی باغی(سامراج کی نظر میں) جو عوام کا ہیرو ہے پیدا ہوتا ہے۔افغانی خون میں ایسی بات ہے جو ہر وقت لڑنے اور مرنے پر آمادہ رہتے ہیں۔ جب روس کے خلاف امریکی مدد سے مزاحمت جاری تھی تو امریکی صحافی نے ایک بارہ سالہ بچے سے جس کے ہاتھ میں بندوق تھی(کلاسکوف) پوچھا۔ تم لوگ ہر وقت حالت جنگ میں رہتے ہو کیا بات ہے بچے نے جواب دیا یہ ہمارے خون میں ہے۔
بڑی طاقتوں نے بار بار اس ملک اور عوام کو اپنا غلام بنانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ اور بڑے لکھاریوں نے ان واقعات اور بغاوتوں کی داستانیں قلم بند کی ہیں جن پر فلمیں بنی ہیں۔ سب سے پہلی فلم جو1967میں آئی تھی۔THE LONG DUELتھی جیسے1920میں برٹش رجمنٹ کے سپاہی رنویر سنگھ نے لکھی تھی جسے بعد میں سنیل دت نے ”مجھے جینے دو” اور پاکستان میں ہمایوں مرزا نے محمد علی کے ساتھ فلمایا تھا۔ پھر آئی1971میں فلمTHE HORSEMEN جس میں عمر شریف نے پولو کے مانند گیم بزکاشی کے چیمپئن کا رول ادا کیا تھا۔ بہت خوبصورت اور عورت کی بے وفاقی کی داستان تھی۔ تیسری فلم جو1975میں آئی شین کانری(جیمز بانڈ) کی فلم تھی دی مین ہو وڈبی داکنگ،” یہ رڈیارڈکپلنگ(مشہور صحافی اور ناولسٹ) کی ناول پر تھی ان میں پہلی فلم سپین میں فلمائی گئی تھی اور آج تک امریکی قبضہ سی آئی اے اور بیرونی سیاستوں اور سازشوں کے پلاٹ پر مبنی فلمیں بن رہی ہیں۔ ہم نے جو فلموں کا حوالہ دیا ہے اہم ہے، اس سے کسی بھی قوم کے طور طریقوں، نفسیات ،کلچر اور مردانگی کا پتہ چلتا ہے خیال رہے بنانے والے امریکی اور برطانوی لوگ ہیں۔ جو ملک عرصہ سے جارحیت کا شکار ہو اس کے لوگ کیسے ہونگے یہ آپ وہاں کے قدیم صوفی شاعر رحمان بابا کا کلام پڑھ کر لگا سکتے۔ کہتے چلیں شاعری اور ادب کسی بھی قوم کو بیان کرتے ہیں۔ نفسیات عادات، رہن سہن، دوستی اور دشمنی کا احاطہ کرتے ہیں۔ ہم رحمان بابا کی شاعری کو پشتو سے اردو ہیں۔ ترجمہ کرنے سے قاصر ہیں لیکن ان کے کچھ قول رقم کردیتے ہیں۔ انکا ایک مشہور قول ہے۔ ”اللہ سے سے بخت(قسمت مانگو عقل مت مانگو کیونکہ عقلمند اکثر بخت والوں کے غلام ہوتے ہیں”، ایک اور ”دنیا میں ہر مرض کی دوا ہے لیکن لالچ کی نہیں” اور یہ ہمارے ملک کے حکمرانوں کے لئے ہے۔ ”جس شخص کے ذمے لوگوں کی کی قیادت سونپی گئی ہے وہ ہمیشہ غم ورنج میں مبتلا رہے گا۔” رحمان بابا کی پیدائش1632میں ہوئی تھی پشاور کے بہادر کلی میں ہوئی تھی۔ پشاور ہمیشہ سے ہی شاعروں، فنکاروں، دانشمندوں، مفکروں کی زمین رہی ہے بڑے بڑے نام واستہ ہیں۔ جن میں پطرس بخاری، خاطر غزنوی، فارغ بخاری، رضا ہمدانی، تاج سعید زیڈ اے بخاری، جیتندر بلو اور احمد فراز کے بعد جو پہلے دنوں ہمارے سننے میں آیا وہ ڈاکٹر عباسین یوسف زئی کا ہے۔ جو پشتو اور اردو کے شاعر ہیں۔ پچھلے ہفتہ نیویارک کی خیبر سوسائٹی نے12کتابوں کے مصنف، دانشور، محقق اور اسلامیہ کالج پشاور کے پشتون کے شعبہ کے چیئرمین کے اعزاز میں اور انکے ساتھ وفد میں آئےKPTکی شخصیات کے لئے محفل سجائی اور مشاعرے کا اہتمام کیا۔ جس کی نظامت ٹرائی اسٹیٹ ایریا کے جانے پہچانے ارباب ذوق کے بانی اور ناظم طاہر خان نے کی۔ ڈاکٹر اباسین کو انکی خدمات پر خیبر سوسائٹی نے شیلڈ پیش کی۔ ڈاکٹر شفیق، تاج سعید، جہانگیر خٹک، عتیق صدیقی نے اپنی تقاریر میں خراج تحسین پیش کیا۔ کہ وہ نئی نسل کی تربیت کر رہے ہیں۔ پروگرام دیکھ کر ہمارا بھی ایسا کہنا ہے کہ ادب، شاعری اور فنون لطیفہ کو فروغ مل رہا ہے۔ مشاعرے کے بعد پشتو موسیقی اور گانوں کا پروگرام تھا ڈاکٹر اباسین یوسف زئی کا ایک شعر رقم کرتے چلیں۔
”میں بھی منصور ہوں منصور میری روح میں تھا”
ہم سے لوگوں نے محبت کا بھرم رکھا ہے
صدر زماں آفریدی نے خیبر سوسائٹی کی، ترکی اور شام میں زلزلہ زدگان کے لئے خدمات کی تفصیل بتائی۔ ایک اہم قابل غور بات جو تاج اکبر سابقہ چیئرمین نے کہی لکھتے چلیں۔ پختونخواہ محبت کرنے والی قوم ہے اور ادب ہی وہ واحد وسیلہ ہے جس کے ذریعے انسان کی خدمت کی جاسکتی ہے ہم کہتے چلیں کہ ادب اور مطالعہ انسانوں کو شعور مہیا کرتا ہے۔ لوگوں کو سمجھنے اور ایک بہتر معاشرہ کی تکمیل میں اس کے بغیر منزل پا لینا ناممکن ہے پاکستان اس کی موجودہ مثال ہے۔ کم ازکم پنجاب سندھ اور بلوچستان میں یہ دونوں چیزیں ناپید ہیں پشاور (KPK) نے بڑے بڑے نادر ہیرے فراہم کئے ہیں۔ ایک وقت تھا جب ہندوستان کی فلم انڈسٹری ان ہی ہیروں (دلیپ کمار، راج کپور، جینت اجیت، مدھوبالا) سے دمک رہی تھی۔ تفصیل ہے اور اتنا لکھنا کافی تو نہیں لیکن مجبوری ہے۔ احمد فراز جو ضیاء الحق کے دور میں عقاب میں رہے کا ایک پیارا شعر لکھتے چلیں1980کی یاد ہے۔
سنا ہے لوگ اُسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
سو اس کے شہر میں کچھ دن ٹہر کے دیکھتے ہیں
بات شعر وشاعری کی ہو رہی ہے تو کارون فکر فن کا بھی ذکر کرتے چلیں جس کے بانی وکیل انصاری ہیں اور عرصہ دراز سے محفلیں سجا رہے ہیں ایک ایسی ہی محفل انہوں نے ناسا کائونٹی میں کاروان فکر وفن کے تلے سجائی پچھلے اتوار کی پہر ”عین ملن مشاعرہ” کے نام سے۔ ہمیں امید تھی کہ ڈے کیرمنیسٹر میں وہاں کا فراہم کردہ ہال کچھا کھچ بھرا ہوگا لیکن کچھ مشہور شعراء کی علالت اور عدت کے علاوہ موسم کی خرابی آڑے آئی۔ پھر بھی پروگرام کے ناظم اعجاز بھٹی نے اپنی ذہانت اور ہرجستگی سے مشاعرے کو طوالت دی اور ہنساتے رہے ہمیشہ کی طرح اچھی بات یہ تھی کہ انہوں نے درمیان، درمیان میں اپنی نظمیں اور غزلیں سنانے میں احتیاط رکھی لکھتے چلیں کہ بھٹی اردو اور پنجابی مشاعری میں یکتا ہیں مشاعرے کی صدارت کے لئے مشہور شخصیت اور ادبی شاعری، مذہبی، معاشرتی اور سیاسی محفلوں کی جان اور امریکہ میں نظامت کے لے مشاعروں کی جان۔ بقول شوکت تھانوی۔ ایک ناظم سوتے ہوئے مشاعرے کو جگا سکتا ہے اور ترتیب بدل کر میدان میں واہ واہ کا شور بلند کروا سکتا ہے ایک ہندو پاک مشاعرے میں شوکت تھانوی نظامت کر رہے تھے مشاعرہ واہ واہ کی آوازوں سے گونج اٹھا۔ ایک مصرعہ ”میں تو سمجھاتھا انناس وہ عورت نکلی” یہ مصرعہ تھا انکی نظم تبریدی آرٹ پر لکھی گئی ہے۔ اس تعلق سے ہم اس مشاعرے کا ذکر کرتے ہیں جو کسی طور پر زعفران تھا اعجاز بھٹی کی نظامت سے اس میں شریک تھے۔ یوسف خان، راجہ اویس، جمیل عثمان، ڈاکٹر شفیق، وکیل انصاری، یہاں ہم اعجاز بھٹی کو ہدایت دیتے چلیں کہ سننے والا شاعر اور شاعرہ کا نام جاننا چاہتا ہے جب اسے نام یاد رہ جائے۔ نام کو واضح آواز میں لیا جائے کچھ نئے شعراء ہوتے ہیں ہمارے لئے ہر چند کہ ہم نے ریکارڈنگ کی تھی دو خواتین شعراء کے نام یاد نہ رہ سکے بار بار سننے پر بھی سمجھ نہ آسکے۔ اگر اعجاز بھٹی پڑھ رہے ہوں لہذا ان کے نام لکھنے سے قاصر ہیں۔ اور شاعروں کے لئے یہ کہ اپنے اشعار ٹہر کر پڑھیں اور دہرائیں۔ اس منی مشاعرے کی خوبی اور حیران کن بات یہ تھی کہ ایک نوجوان خوش گفتار خوش شکل مشاعرہ جو کنیکٹی کٹ سے آئی تھیں نام تھا حمیہ گل تشنہ قدرے مشکل لیکن انکی دبنگ شاعری پڑھنے کا انداز ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ اس دور میں پروین شاکر ہیں۔ پروین شاکر کا لہجہ بھی ناصحانہ اور تنبیہانہ تھا یہاں بھی ایسا ہے اور ان کے اشعار سے محفل نہ صرف اٹھ گئی بلکہ تروتازہ ہوگئی ضروری ہے کہ دو اشعار لکھتے چلیں یہ بھی ضروری ہے کہ انکی بھرپور حوصلہ افزائی کی جائے کہ مشاعرے ہمارے معاشرے کی جان تھے اور روح ہیں اور دہائیوں میں ایسی شاعری سننے کو ملے جس میں انفرادیت ہو تو وہ سننے والے کو خود سے اپنی طرف سمیٹ لیتی ہے۔ غزل کے اشعار ہیں
تمہارے سر پہ آئی تو خدا کی آزمائش
مصیبت ہم یہ آئی تو مکافات عمل ٹہری
نہیں نہیں تیری محبت نہیں چلے گی
یہ میرا دل ہے تیری محبت نہیں چلے گی
ڈاکٹر شفیق یہاں کے سینئر شاعر ہیں، احمد فراز کے ساتھیوں میں سے انکا یہ شعر
آگئے آنے کو مکیں ان کو اندازہ نہ تھا
دل سے باہر کی طرف جانے کو دروازہ نہ تھا
آخر میں ڈاکٹر پرویز اقبال نے اپنی لڑکین اور جوانی کے دور کی شاعری سے متعلق باتیں کیں جو دلچسپ تھیں بالآخر فیض احمد فیض کو پڑھ کر انکی ہمت ٹوٹ گئی طاہر خان یہاں کی ادبی، معاشرتی، سیاسی اور شاعری تنظیموں کے روح رواں ہیں۔ انہوں نے اچھی باتیں کیں کہ سوشل میڈیا اورGPS کے معجزے نے ہمیں کتابوں سے دور کردیا ہے۔ خبر سے بے خبر اور آگہی سے دور لیکن ایسی محفلوں کا انعقاد ضروری ہے خیال رہے شاعری اور خدمت خلق ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔
٭٭٭٭

ا

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here