خدا کیلئے پاکستان بچائو!!!

0
72
جاوید رانا

ہم اپنے کالم کا آغاز دور حاضر کی ممتاز ترین شاعرہ ذکیہ غزل کے اس شعر سے کر رہے ہیں جو وطن عزیز کی موجودہ حالت زار کی بھرپور عکاسی کرتا ہے” بہار گُم ہے مرے دیس کی فضائوں سے، میں اب خزائوں کی آہ و فغاں کا حصہ ہوں”۔ حقیقت یہی ہے کہ میرا وطن کراچی سے کشمیر تک آہ و بُکا، احتجاج اور نا امیدی و غیر یقینی کے طوفان میں گھِرا ہوا ہے۔ فرد سے لے کر ہر شعبۂ حیات تک سیاسی عدم استحکام و یقین، ابتر نظام حیات و مملکت، مہنگائی کے بدترین بحران سے جہاں ایک جانب عام آدمی اپنی زندگی سے تنگ آچکا ہے وہیں آئین، قانون، ریاست، حکومت، انصاف اور حقوق انسانی کی دھجیاں بکھر چکی ہیں۔ ڈالر نے تین سنچریاں پار کیں تو چینی نے ڈبل سنچری مکمل کر لی، بجلی کے بلوں نے عام آدمی کیلئے ملک الموت کا رُوپ دھارا ہوا ہے اور ملک بھر میں احتجاج کا ایسا لامتناہی ذریعہ بنا دیا ہے جو نہ حکمرانوں سے کنٹرول ہو رہا ہے نہ زور آوروں کے بس میں آرہا ہے۔ ایک طرف تو عوام کے وسائل سے محرومی، مہنگائی اور بنیادی حقوق سے ماورا حرکات و اقدامات اور دوسری طرف سیاسی بھونچال اور حسب معمول غیر جمہوری روایات سے عوامی رائے و حق رائے دہی سے اصل حکمرانوں یعنی اسٹیبلشمنٹ کا انحراف سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے اور حقیقی و عوامی و سیاسی قیادت کو دیوار سے لگانے کے عمل نے میرے وطن کو درحقیقت خزائوں سے دوچار کر دیا ہے بلکہ تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے خصوصاً پچھلے دو سالوں میں وطن عزیز جس انتشار، نفاق اور سنگین سیاسی، معاشی، معاشرتی حتیٰ کہ اخلاقی تنزل سے معاشی، معاشرتی حتیٰ کہ اخلاقی تنزل سے دوچار رہا ہے اور بدتریج منفی اثرات کا شکار ہو کر ان حدوں کو پہنچ چکا ہے جہاں ممالک و اقوام کی شکست و ریخت انجام بنتی ہے، ان حقائق سے نہ صرف ہم اپنے احساسات کا اظہار کرتے رہے ہیں بلکہ ہر محب وطن پاکستانی بھی اس آگ میں جل رہا ہے افسوس یہ ہے کہ ہمارے دیس کے با اختیار، ذمہ دار اور فیصلہ ساز حقائق کو جانتے ہوئے بھی عدم استحکام و انتشار اور سنگینی کی اس آگ کو ٹھنڈا کرنے کے برعکس جلتی پر تیل ڈالنے کا کام انجام دے رہے ہیں اور وہ تمام اقدامات کر رہے ہیں جو ملک و حالات کو مزید بگاڑ کی طرف لے جائیں۔ صحافت یا میڈیا کو کسی بھی مملکت کا چوتھا سکون قرار دینے کیساتھ اسے ملکی حالات و عوام کا نباض قرار دیا جاتا ہے اور غیر جانبداری و سچائی کو اس کی صفت و خُوبی اور اصلاح کیلئے اس کے کردار کو بنیاد سمجھا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہمارا میڈیا اپنا یہ فریضہ اور قومی کردار کماحقہ” ادا کر رہا ہے۔ دنیا گلوبل ولیج میں ڈھل جانے کے سبب میڈیا کے ذرائع میں مسلسل اضافے، جدیدیت اور مختلف میڈیم کی شمولیت نے اصل حقائق کو پوشیدہ رکھنے یا جھٹلانے کی ماضی کی ر وایات پر حرف تنسیخ ڈال دیا ہے اور کتنی بھی کوشش کی جائے سچ کو چھپایا نہیں جا سکتا لیکن اس کیساتھ ہی یہ بدعت بھی سامنے آئی ہے کہ اسی میڈیا کو پروپیگنڈے کا ایسا میڈیم بنا لیا گیا ہے جہاں سچ و جھوٹ کی تمیز ختم ہو جاتی ہے اور حقائق کو مسخ کر دیا جاتا ہے۔
موجودہ سیاسی حالات میں نہ صرف پاکستانی میڈیا بلکہ سوشل میڈیا بھی اپنے قومی فریضہ اور سچ بیان کرنے یا حقائق کی صحیح نشاندہی کرنے کے برعکس اپنے سیاسی الحاق اور مالی منفعت کے پیش نظر سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ بنانے میں عمل پیرا ہے۔ موجودہ سیاسی بحران عوام کے حق رائے دہی اغماض اور عوام کی حقیقی قیادت و جماعت کیخلاف ریاست، حکومتی و آئینی اداروں کی ظالمانہ کارروائیوں، غیر انسانی و غیر جمہوری رویوں، وحشت انگیز گرفتاریوں، قید و بند کے ہتھکنڈوں کو یہ زر خرید و موقع پرست صحافی و اینکرز جس طرح جائز قرار دے رہے ہیں وہ کسی بھی صحافت کے اصولوں اور غیر جانبداری کے مطابق نہیں ہیں۔ اس منفی کھیل میں ایسے سینیٹر اور جید صحافی، اینکرز، تجزیہ کار اور یو ٹیوبرز ولاگرز شامل ہیں جن کے ایک صحافی ہوتے ہوئے میرے لئے نام لینا بھی مناسب نہیں ہے تاہم منصور علی خان، جاوید چودھری، کامران شاہد، مبشر لقمان وغیرہ جس طرح عمران خان کیخلاف زہر اُگل رہے ہیں وہ کسی روئیے سے بھی صحافتی اصولوں پر پورا نہیں اُترتا ہے۔ تمام تر زیادتیوں، غیر انسانی و غیر قانونی جبر اور قید و بند کے باوجود اور ریاست کے عمران مخالف اقدامات و مظالم کے باوجود عمران اپنے مصمم ارادے اور مضبوط منشور پر ڈٹا ہوا ہے، ان ریاستی پٹھوئوں نے عمران کے ڈیل کرنے اور ملک چھوڑنے کا مکروہ گمراہ کن پراپیگنڈہ جاری رکھاہوا ہے۔ عدلیہ بالخصوص چیف جسٹس بندیال کی سہولتکاری نیز سلمان رشدی کے وکیل جیفری رابرٹسن کے عالمی عدالت میں عمران خان کا مقدمہ لڑنے اور کبھی عمران کی بیوی اور بہنوں کے مقتدرین و اہم شخصیات سے رابطوں کی کہانیاں سنائی ہیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ تمام تر ریاستی چیرہ دستیوں، مخالفانہ پروپیگنڈے کے باوجود عمران کے پائے استقامت میں کوئی لغزش نہیں آئی ہے اور وہ آج بھی ڈٹ کر کھڑا ہوا ہے۔ صداقت عباسی کی گرفتاری اور 82 سالہ پرویز الٰہی کی لاہور ہائیکورت کے واضح حکم کے باوجود گرفتاری وہ تازہ واقعات ہیں جو عمران کو کمزور کرنے کیلئے کئے گئے لیکن یہ ریاستی ظلم بھی عمران کے عزم کو کمزور نہیں کر سکتے ہیں تاہم 90 روز میں انتخاب کیلئے اس نے تمام سیاسی جماعتوں اور اداروں سے مذاکرات کا عندیہ اپنے وکلاء کے توسط سے ضرور دیا ہے لیکن ہمارا یقین ہے کہ اصل حکمران 90 روز میں انتخابات کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے، انہیں پتہ ہے کہ شفاف اور غیر جانبدارانہ الیکشن کا نتیجہ عمران کی کامیابی ہی ہوگا۔ اس کا واضح ثبوت گزشتہ دنوں پختونخواہ کے بلدیاتی الیکشن میں عمران کے جیل میں ہونے کے باوجود 50 میں سے 37 نشستوںپر پی ٹی آئی ارکان و ہمدرد کاکامیاب ہونا ہے۔ یقیناً یہ حقیقت چشم کُشا ہے۔
حالات اس وقت جس حد تک خراب ہو چکے ہیں، عوام کا صبر جواب دے چکا ہے اور کراچی سے خنجراب تک عوامی احتجاج و رد عمل انتہاء کو پہنچ گیا ہے خدشہ یہی ہے کہ نگراں حکومت کیلئے جاری بحران پر قابو پانا مشکل ہی ہوگا۔ دوسری جانب صدر مملکت کی تکمیل مدت8 ستمبر اورچیف جسٹس کی16ستمبر کو ریٹائرمنٹ کے سبب اور عوام کے بجلی، پیٹرول و دیگر ضرورتوں کی عدم دستیابی پر احتجاج کا تسلسل (گلگت میں لاکھوں کا احتجاج اور فوج کا کنٹرول کرنا) کہیں کسی ایسے بیرونی ایجنڈے پر عملدرآمد کامعاملہ تو نہیں جس کے نتیجے میں پاکستان کو متحدہ عرب امارات کی طرز پر چھوٹی ریاستوں کی شکل دیدی جائے۔ ہمارا یہ خدشہ اس لئے اور بڑھتا ہے جب ہم نگراں وزیراعظم کے قومی اداروں اور ایئرپورٹس کی نجکاری و لیز پر دینے کے روٹ پلان سے آگاہ ہوتے اور آئی ایم ایف کے بجلی کے بلوں میں ریلیف کی بابت انکار سنتے ہیں۔ ہماری تشویش ہے کہ صوبوں کو ریاستیں بنانے سے پاکستان جیسے نیوکلیائی ملک کے استحکام، تحفظ اور خود مختاری کو خطرات درپیش ہو سکتے ہیں۔ یو اے ای اور دیگر ایسی مملکتوں کے معاشرتی، معاشی، نفسیاتی و عوامی مزاج سے پاکستان بہت مختلف ہے۔ وطن کی سالمیت کے ذمہ داروں کو سوچنا ہوگا پاکستان کی وحدت کا واحد راستہ تمام ایکٹرز کے اتحاد اور شفاف انتخابات میں ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here