الشیخ محمد صاوی موجودہ دور کے مشہور عالم دین ہیں۔ کئی کتابوں کے مصنف اور اپنے دل دہلانے والے خطبوں سے بھی کافی مقبول ہیں۔ سعودی عرب سے تعلق ہے۔ لیکن مصر میں مقیم ہیں۔ فرماتے ہیں کہ ایک دن میں سفر پر تھا۔ واپس اسکندریہ پہنچا تو تہجد کا وقت تھا۔ یہ سوچ کر مسجد کا رخ کیا کہ اگر گھر جا کر سو گیا تو جماعت نکل جائے گی۔ مسجد کے ہال میں داخل ہوا تو ایک بڑے میاں محراب میں سربسجود ہو کر رو رہے ہیں اور مصر کے عامی لہجے میں رب سے التجائیں کر رہے ہیں: یا رب خلاص بقا یا رب.. یا رب نا تعبت خلاص یا رب.. یا رب ملیش غیر یا رب.. یا رب روح فین یا رب؟ (پروردگار! مجھے نجات دے، میں تھک گیا ہوں اے رب! میرا کوئی اور رب بھی نہیں ہے تیرے سوا، میں اب کہاں جاوں تیرا در چھوڑ کر؟) میں نے دل میں کہا کہ یہ کسی گناہ کی وجہ سے نہیں، بلکہ کسی سخت مجبوری اور ضرورت کیلئے التجائیں کر رہے ہیں۔ میں ان کا انتظار کرنے لگا۔ یہاں تک کہ انہوں نے نماز ودعا مکمل کی۔ میں ان کے قریب گیا۔ کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ چچا جان! کیا پریشانی ہے کہ آپ کی دعا نے میرا کلیجہ بھی چیر دیا؟ کہنے لگے کہ میری بیوی اسپتال میں ہے۔ آج 9 بجے آپریشن کا ٹائم دیا ہے ڈاکٹروں نے اور کہا ہے کہ آپریشن سے پہلے 15400 جنیہ (مصری پائونڈ۔ ہندوستانی کرنسی میں تقریبا 40 ہزار روپے) جمع کرا دو لیکن میرے پاس تو ایک جنیہ بھی نہیں ہے۔ میں نے کہا چچا جان اللہ جانتا ہے کہ میں اس پوزیشن میں نہیں ہوں کہ آپ کی کوئی مدد کر سکوں۔ لیکن میں آپ کو خوشخبری ضرور دیتا ہوں کہ اللہ جل شانہ ماں سے بھی زیادہ مہرباں ہے۔ اسی پر بھروسہ رکھو۔ وہ آپ کی دعا رائیگاں نہیں کرے گا۔ میں چونکہ سفر کی وجہ سے تھکا ہوا تھا۔ اس لئے 2 رکعت پڑھ کر ہی ایک ستون کے ساتھ ٹیک لگا کر سو گیا۔ مذن نے آکر جگایا۔ میں نے وضو کر کے سنت پڑھ لی۔ اتنے میں امام صاحب آگئے۔ مجھے دیکھ کر بڑے خوش ہوئے اور فرمایا کہ ! “باللہ یا شیخ تصلی بنا” یعنی قسم دی کہ آج نماز آپ پڑھائیں۔ میں نے معذرت کی کہ سفر کی وجہ سے تھکا ہوا ہوں لیکن امام صاحب نے کوئی عذر نہیں سنا اور فرمایا کہ چلیں، چھوٹی سورت سے ہی نماز پڑھالیں۔ بہرحال میں نے جماعت کرالی۔ سلام پھیرنے کے بعد میں مقتدیوں کی طرف رخ پھیر کر ابھی بیٹھا ہی تھا کہ تیسری صف سے ایک شخص میری طرف آنے لگا۔ وضع قطع سے ہی کوئی بڑا امیر کبیر آدمی معلوم ہو رہا تھا۔ گرم جوشی سے مجھے سلام کیا اور کہا کہ میرا گھر یہاں قریب ہی ہے، عموما فجر میں مسجد نہیں آپاتا، لیکن آج آپ کی آواز آئی تو چلا آیا تاکہ آپ کی اقتدا میں نماز پڑھ لوں اور سلام بھی کر لوں۔ پھر کہنے لگا کہ الحمد للہ میری فلاں روڈ پر پلاسٹک کی بڑی فیکٹری ہے۔ اللہ کا بڑا ہی کرم ہے مجھ پر۔ ایک مسئلہ پوچھنا تھا کہ میرے پاس زکو کے 15400 جنیہ جمع ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ شیخ صاوی کہتے ہیں کہ یہ 15400 کا ہندسہ سن کر ہی میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ پھر بے اختیار میری ہچکی بند گئی۔ لوگ حیران کہ شیخ کو کیا ہوگیا۔ انہیں کیا پتہ کہ نالہ نیم شبی میں کتنی قوت ہے، جو عجیب طریقے سے اپنا اثر دکھا رہا ہے۔ میں نے صفوں میں نظر دوڑائی تو اس بے چارے ضرورت مند پر بھی نظر پڑی، جو سر جھکا ئے بیٹھا تھا۔ میں نے کہا کہ آیئے حاجی صاحب! وہ میرے پاس آئے۔ ان کی آنکھیں رونے کی وجہ سے لال ہو رہی تھیں۔ میں نے ان سے کہا کہ چچا جان، آپ کیوں رو رہے تھے تو اس سادہ مزاج آدمی نے کہا بتا دیا ناں کہ میری بیوی کا آج آپریشن ہے، جس کا خرچہ 15400 جنیہ ہے، مگر میرے پلے ایک جنیہ بھی نہیں۔(میں دراصل سیٹھ صاحب کو سنوانا چاہ رہا تھا) یہ سن کر سیٹھ صاحب بے اختیار مجھ سے لپٹ گئے اور اللہ اکبر کے نعرے لگانے لگے۔ میں نے کہا یہ کیا بات ہے؟ تو کہا کہ میری بیوی کب سے کہہ رہی تھی کہ یہ زکو کی رقم ہے، اسے کسی مستحق کو دے دو۔ لیکن میں ہر بار اس سے کہتا کہ نہیں، جب تک کوئی سخت حاجت مند مل جائے تاکہ اس رقم کی وجہ سے اللہ کریم اس کی شدید ضرورت کو پورا کرے۔ بس اسی کو یہ رقم دے دوں گا تاکہ اس کی مصیبت دور کرنے پر اللہ تعالی روز قیامت ہمارے مصائب کو دور فرمائے۔ کیونکہ رسول اقدس نے فرمایا ہے کہ
“من فرج عن مسلم رب من رب الدنیا فرج اللہ عنہ رب من رب یوم القیام ”
یعنی جس نے کسی مسلمان سے دنیا کی مصیبت و تنگی کو دور کیا اللہ تعالیٰ قیامت میں اس کی تنگی کو دور فرمائیں گے۔ (صحیح مسلم: 4585)
٭٭٭