سیاسی معرکہ اب بس ایک دن ہی دور ہے۔ جماعت اسلامی نے دوسری جماعتوں کے برعکس کسی بھی سیاسی جماعت سے کسی بھی سطح پر کوئی اتحاد/سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہیں کی، ایمپائر کی انگلی کی بجائے صرف عوام کی طاقت اور رب کی نصرت پر بھروسہ کیا ہے۔ تمام حلقوں میں اسکریننگ (screening) کے بعد اپنے نام اور نشان (ترازو) پر بہترین امیدوار میدان میں اتارے ہیں۔یہ امانت و دیانت، مضبوط تنظیم، عمدہ لیڈرشپ، فعال ملک گیر سیٹ اپ، الخدمت فانڈیشن کا وسیع نیٹ ورک، بہترین کارکردگی، اندرونی جمہوریت کی حامل، موروثیت اور کرپشن سے پاک سیاست کی علمبردار جماعت ہے۔دوسری سیاسی جماعتیں وصیت، وراثت، اور آمریت پر چل رہی ہیں، یا فین کلب ہیں۔ جماعت اسلامی میں ڈی این اے کی بنیاد پر لیڈرشپ نہیں ملتی، یہ کسی خاندان کی پارٹی نہیں بلکہ عوام کی پارٹی ہے۔ یہ واحد جماعت ہے جس میں سب سے زیادہ داخلی جمہوریت (internal democracy) ہے۔
وراثت سے طے نہ ہونگے ریاست کے فیصلے
اڑان طے کرے گی آسمان کس کا ہے
سیاسی جماعتوں میں سب سے پہلے اسی نے ایک اسلامی ، فلاحی ، خوشحال، پر امن، اور ترقی یافتہ پاکستان کا ایسا جامع منشور پیش کیا ہے،جس کے لیے لفظ جامع بھی چھوٹا محسوس ہوتا ہے۔ایک واضح ایجنڈا، قومی اور سیاسی معاملات میں دو ٹوک موقف ، کرپٹ روایتی سیاسی جماعتوں/خاندانی پراپرٹیز کا واحد اور بہترین متبادل، پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ،اسلامی ، قومی و عوامی ایشوز اور مسائل پر مسلسل جارہانہ سیاست کرتی چلی آ رہی ہے۔
نہ جھکی، نہ بکی، نہ کٹھ پتلی بنی۔ نہ جھوٹے وعدوں اور نعروں کا سہارا لیا۔اسے جہاں جتنا اختیار ملا، اس نے ڈیلیور کیا۔ اقتدار کو امانت اور خود کو خدا اور عوام کے سامنے جوابدہ سمجھا۔ پرفارمنس اور good governance کی شاندار مثالیں قائم کیں اور کرپشن فری آپریٹنگ ماڈل متعارف کروایا۔اسکے امیر سراج الحق کی بطور وزیر خزانہ kpk بہترین کارکردگی (سود فری بجٹ پیش کیا، قرض فری صوبہ بنایا)، سینیٹ میں مشتاق احمد خان (The most vocal Senator) نےFATF کی ہدایت پر ہونے والی قانون سازی، آرمی چیف کی ایکسٹینشن اور ٹرانسجینڈر ایکٹ کی ڈٹ کر مخالفت کی۔ کراچی میں حافظ نعیم الرحمان، گوادر بلوچستان میں مولانا ہدایت الرحمان بلوچ، قومی اسمبلی میں مولانا عبدالاکبر چترالی ، سندھ اسمبلی میں سید عبدالرشید اور kpk اسمبلی میں عنایت خان۔ حق گوئی اور بے باکی کی علامت۔ اسلامی اور عوامی ایشوز، مسائل اور حقوق کی سب سے توانا آواز ۔ پلڈاٹ کے مطابق یہ تمام ممبران پارلیمانی کاکردگی میں سر فہرست ۔مختلف ادوار میں منتخب ہونے والے اسکے سینیٹرز، ممبران قومی و صوبائی اسمبلی ، وزرا ، مئیرز، تحصیل اور ٹان ناظمین، کونسلرز ۔ اس کا فخر۔ کسی ایک پر بھی ایک روپیہ کی کرپشن کا داغ نہیں۔ نہ پانامہ پیپرز ، نہ پنڈورا پیپرز، نہ وکی لیکس ، نہ سوئس لیکس، نہ ہی نیب زدہ ۔ kpk سے تعلق رکھنے والے اس کے ایم پی اے محمد علی نے نو کروڑ کی آفر ٹھکرا دی۔یہ کارنامہ اللہ تعالی کے خصوصی فضل و کرم کے بغیر ممکن ہی نہیں۔
یہ چند ہیں لیکن قابل فخر ہیں
یہ چند ہیں لیکن غلام نہیں ہیں
الحمد للہ برادر راشد مشتاق کی تحریر سے اقتباس ۔ kpk کی صوبائی حکومتوں اور کراچی کی مئیرشپ (نعمت اللہ خان اور عبدالستار افغانی) کی صورت میں اسکا بہترین آپریٹنگ ماڈل سب کے سامنے ۔ ترقی اور دیانت کے دوڑ میں یہ چمکتا آفتاب۔ حال ہی میں مختلف شہروں میں بنو قابل پراجیکٹ، اس کا ایک عظیم کارنامہ ہے۔ سیاسی جماعتوں کے لیڈرز کی پاپولریٹی جانچنے کے حالیہ گیلپ سروے میں اسکے امیر سراج الحق کی پنجاب اور ملکی لیول پر بڑھتی ہوئی مقبولیت۔ کراچی سے متعلق پلس کنسلٹنٹ کے سروے کے مطابق عوام نے حافظ نعیم الرحمان کو 53 فیصد کے ساتھ کراچی کے مسائل پر آواز اٹھانے والا مقبول ترین لیڈر اور جماعت اسلامی کو اپنے مسائل کا حل قرار دے دیا۔ جو ان شااللہ پورے پاکستان کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہو گا۔ جماعت ہی اقتدار کو اللہ تعالی کی ایک مقدس امانت سمجھتے ہوئے یہ ملک چلا سکتی ہے۔ دنیا سے بات کر سکتی ہے۔ دنیا کے سامنے پاکستان کو ایک باوقار قوم کی حیثیت سے کھڑا کر سکتی ہے۔ قوم کو صحیح سمت دے سکتی ہے۔ ملک کو خوشحالی اور ترقی کے سفر پر گامزن کر سکتی ہے۔ آئین کی اسلامی دفعات کا اس کی اصل روح کے مطابق عملی طور پر نفاذ کر سکتی ہے۔ فوج، عدلیہ، بیوروکریسی، صحافت، میڈیا اور سیاست دان وغیرہ سب کو عزت کے ساتھ ان کے مقام پر رکھ سکتی ہے۔ ہر طرح کے استحصال (معاشی، سیاسی، سماجی)سے پاک اسلام کا عادلانہ سیاسی، معاشی اور سماجی نظام قائم کر سکتی ہے۔ آپ نے سیلیکٹڈ اور امپورٹڈ سب کو آزما لیا۔ اب کمیٹڈ committed کو موقع دیں۔آزاد کا ہر صورت بائیکاٹ۔ ان کا ٹریک ریکارڈ آپ کے سامنے۔ وہیں، جہاں اچھے دام ۔ گھوم پھر کر ایسٹبلشمنٹ کی منظور نظر پارٹیوں کے نام۔
جس پارٹی کے اپنے نشان پر جیتنے والے اسکے ممبران اسمبلی بکتے رہے ہوں وہ آزاد جیت کر کیوں نہ بکیں گے ۔لہذا آپ سب درد دل رکھنے والے، محب وطن پاکستانی، پاکستان کو عظیم تر بنانے کا جذبہ رکھنے والوں کے لیے ترازو ہی بہترین آپشن۔ اتنے ووٹ دیں کہ کمپنی سمیت کرپٹ پارٹیوں کی منصوبہ بندی دھری کی دھری رہ جائے۔
لہذا جماعت کا دست و بازو بنیں۔ بیرونی پالیسیوں پر چلنے والے، عوام دشمن عناصر کا بائیکاٹ کریں۔ یہ قوم چوروں ، دھوکہ بازوں ، مفاد پرستوں ، نااہلوں اور انہیں قوم پر مسلط کرنے والوں کو خیر باد کہہ کر جماعت کی پشت پر کھڑی ہو۔ بالآخر جیت عوام کی ہو۔ جیت پاکستان کی ہو ۔
جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں۔ اس الیکشن میں آزماء ہوئی، ایسٹبلشمنٹ کی منظورنظر ناکام پارٹیوں کو مسترد کرکے تعمیر و ترقی کے نئے دور کا آغاز کریں۔ان تمام نکات کو دیکھا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ ملک میں جماعت اسلامی اور ترازو سے زیادہ آپ کی قیادت اور ووٹ کا حق دار اور کون ہے؟
پوری قوت زور لگا
تیر کو توڑو ، شیر دوڑا
اب کی بار ، ترازو لا۔
٭٭٭