ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق

0
10
جاوید رانا

ہم نے اپنے گزشتہ کالم ”یہ جمہوریت ہے یا تماشہ” کا اختتام کرتے ہوئے اقبال کے شعر کے حوالے سے اظہار کیا تھا ”ہم کب تک ابراہیم کی تلاش میں رہیں گے، کچھ معلوم نہیں”۔ درحقیقت یہ حوالہ مایوسی کا اظہار تھا کہ وطن عزیز میں کسی بہتری کے کوئی آثار نظر نہیں آتے، نہ ہی جمہوریت کے پھلنے پھولنے کے کوئی آثار کہ نظام حکومت و مملکت ان طاقتوں کے اختیار میں ہے جنہوں نے تین عشروں سے زائد براہ راست اور بقایا 45 برسوں میں بالواسطہ زمامِ اقتدار و اختیار کا فیض اُٹھایا ہے۔ جن کے اشارۂ ابرو کے بغیر چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی، ان کے فیصلے اور رضا کے بغیر نہ کوئی سیاسی جماعت اقتدار میں آسکتی ہے اور نہ کوئی فرد یا ادارہ اختلاف یا شکوے کا اظہار کرنے کی ہمت کر سکتا ہے، تاریخ اس سچائی کی گواہ ہے کہ جسٹس منیر سے لے کر موجودہ عدالتی سربراہ تک یہی دیکھا گیا کہ ہر دور میں عدلیہ کا کردار مقتدرہ کی مرضی کے تابع ہی رہا خواہ وہ فوجی مارشل لائ، آئین کی معطلی، ایمر جنسی کے نفاذ کا معاملہ ہو یا حکومتیں بنانے اور بگاڑنے کا مقصد ہو۔ پاکستان اسلامی جمہوریہ ہونے کے باوجود بھی کنٹرولڈ ڈیمو کریسی کی صورتحال سے ہی دوچار رہا، مسند اقتدار پر بٹھانے اور محروم کئے جانے کا کھیل اصلی فیصلہ سازوں کے ہاتھوں میں ہی رہا اور عدلیہ براہ راست یا بالواسطہ اس کھیل کی شریک کار رہی کہ آواز حق بلند کرنے کا حوصلہ ہمیشہ مشکل بلکہ ناممکن ہی رہا، بقول علامہ ”کہاں سے آئے صدا لا الہ الا اللہ” گزشتہ ہفتے اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججز کا خط نہ صرف صدائے لا الہ بن گیا بلکہ موجودہ سیاسی عدالتی و مملکتی حالات میں نئے انتشار بلکہ بھونچال کا سبب بنتا نظر آرہا ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججز کے سپریم جوڈیشل کمیشن کو لکھے گئے اس خط کے مندرجات اور ایگزیکٹو و ایجنسیز کی مداخلت کے واقعات و حوالوں، عدالت عظمیٰ کے فُل بنچ کے اجلاس، چیف جسٹس و وزیراعظم کی ملاقات کمیشن کی تشکیل، TORs اور 300 وکلاء کے اختلافی خط کے بعد نامزد سربراہ سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی معذرت اور سپریم کورٹ کے لارجر بینچ پر مبنی سوموٹو واقعات سے تو قارئین میڈیا کے توسط سے بخوبی آگاہ ہو چکے ہیں، سوال یہ ہے کہ اس خط کے حوالے سے کیا مراحل طے ہوں گے؟ خط کے مندرجات میں بیان کئے گئے شکوئوں یا الزامات کی روشنی میں کیا اسٹیبلشمنٹ اپنی ایجنسیوں کو عدالت کی کارروائی میں پیش ہونے پر راضی ہوگی، کیا مذکورہ ججز اپنی شکایات کی سپورٹ میں ثبوت اور متعلقہ ذمہ داروں کی نشاندہی کرنے کی جرأت کر سکیں گے اور سب سے بڑھ کر کیا عدالت عظمیٰ کا لارجر بینچ اس پوزیشن میں ہوگا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ خصوصاً ایجنسیز کیخلاف عدم مداخلت کا حکم یا فیصلہ دے سکے۔
ہمارا تجزیہ تو یہ ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوگا، بہت کچھ ہوا تو گونگلوئوں سے مٹی جھاڑنے کیلئے آئندہ کیلئے کچھ ہدایات جاری کر کے چیپٹر کلوز کر دیا جائیگا، بالفرض زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے کہ شکایت کنندہ ججز کو خط کے پبلک کئے جانے پر تنبیہہ کر دی جائے یا تادیبی کارروائی کا فیصلہ کر لیا جائے۔ ہمارے اس تجزئیے یا پیش بینی کی منطقی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں ہی نہیں چین، امریکہ، برطانیہ سمیت دنیا بھر میں ریاستی و مملکتی ایجسنیز کا ریاست، حکومت، مملکت و سیاست کے امور میں نہ صرف ملک بلکہ بیرون ملک بھی عمل دخل رہتا ہے۔ ہمارے ملک میں البتہ ایجنسیز کا طرز عمل ظلم و بربریت، دھونس دھمکی، غیر انسانی و دہشت پر مبنی ہونے اور اپنے دائرہ کار سے متجاوز اقدامات کرنے کے باعث ناپسندیدگی میں شمار کیا جاتا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہماری سیاسی اشرافیہ اپنے مقاصد کے حصول کیلئے انہی ایجنسیز کو استعمال کرتی اور مخالفین کو زیر دام لانے اور ناکام بنانے کیلئے اُکساتی ہیں۔ یہ سلسلہ دور حاضر کا ہی نہیں بلکہ کم از کم گزشتہ نصف صدی سے جاری ہے، تاہم گزشتہ چند برسوں میں ان ایجنسیز کے طریقے و روئیے بدترین اخلاقی سطح پر آچکے ہیں، سیاسی لوگوں کی تضحیک، آڈیو ویڈیو لیکس، پُر تشدد طرز کا جبر و استبدداد اور شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری میں ہر حد سے گزر جانا ایجنسیز کا طرۂ امتیاز بن چکا ہے۔
گزشتہ دو برسوں سے پی ٹی آئی کی حکومت جانے کے بعد سے ان ایجنسیوں بلکہ اسٹیبلشمنٹ اور دیگر آلہ کار اداروں نے ظلم و ستم اور انسانی حقوق کی پامالی کے جو اقدامات اپنائے ہوئے ہیں وہ بدترین اور شرمناک اور قابل مذمت ہی قرار دیئے جائینگے۔ پی ٹی آئی کے رہنمائوں، کارکنان، ہمدردوں پر مظالم کی لہر میں انہوں نے بزرگوں، خواتین اور بچوں کو بھی نہیں بخشا ہے، حد یہ کہ عدالتوں سے ضمانتوں اور رہائی کے احکامات کے باوجود پھر گرفتاریاں عمل میں لائی جاتی ہیں، اس کی ایک مثال پی ٹی آئی کی صنم جاوید ہے جسے عدالت سے ضمانت پر رہائی کے حکم کے باوجود بھی دوبارہ گرفتار کر لیا جاتا ہے، افسوس اس بات پر ہے کہ رمضان المبارک کے مقدس مہینہ میں بھی ظالمانہ حربے اور اقدامات جاری ہیں، ظالموں کو اس بات کا بھی احساس نہیں کہ ان سیاسی محصورین کے بھی گھر بار اور خاندان ہیں، عید پر جب یہ محصورین اپنے پیاروں کیساتھ نہیں ہونگے تو ان کے خاندان والوں پر کیا گزرے گی۔ یہی کہا جا سکتا ہے کہ مقتدرین اور ان کے آلہ کار اپنے رویوں اور کرداروں پر غور کریں، انتقام یا بدلہ سوائے برائی کے آپ کو کسی قسم کا فائدہ نہیں دے سکتا، البتہ حالات میں مزید ابتری کا پیام ضرور دیتا ہے۔ غالب نے کہا تھا!
ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق
نوحۂ غم ہی سہی نغمۂ شادی نہ سہی
پاکستان میں حالات اس شعر کی تصویر ہی تو ہیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here