پناہ گزین وہ ہوتے ہیں جو کسی مجبوری میں ایک ملک سے دوسرے ملک میں عارضی سر چھپانے پر مجبور ہوتے ہیں۔جب کہ اپنی ہی جغرافیائی چار دیواری میں دربدر ہونے والوں کے لیے آئی ڈی پیز کا جدید مخفف استعمال ہوتا ہے ( انٹرنلی ڈسپلیسڈ پرسن )۔ جب نارویجن ریفیوجی کونسل جیسا ذمے دار فلاحی و تحقیقی ادارہ یہ بتاتا ہے کہ دو ہزار تئیس میں ایسے انسانوں کی تعداد سات کروڑ سات لاکھ تک پہنچ گئی ہے جن پر اپنی ہی زمین تنگ ہو چکی ہے تو تہذیب و ترقی پر سے ایک بار پھر اعتبار اٹھ جاتا ہے۔ پچھلے پانچ برس میں اندرونِ ملک دربدر ہونے والوں کی عالمی تعداد میں دوگنے سے زائد اضافے کے اسباب تلاشے جائیں تو ان میں سے ستر فیصد بدامنی و جنگ و جدل کے سبب بے گھر ہوئے اور باقی ماحولیاتی تبدیلیوں کا شکار بنے۔ بدامنی کے تناظر میں سب سے زیادہ مسائل سوڈانی جھیل رہے ہیں جہاں خانہ جنگی کے سبب نوے لاکھ انسان اپنی چار دیواری سے نکالے گئے۔گزشتہ برس میں ہونے والے دو تہائی دربدروں کا تعلق صرف تین خطوں سے ہے۔سوڈان ، کانگو اور فلسطین۔جب کہ ایک کروڑ سترہ لاکھ یوکرینی دو ہزار بائیس میں ہی جنگ کے پہلے سال کے دوران گھربار چھوڑ چکے ہیں۔بے خانماں قدرتی آفات زدوں میں ترکی کے زلزلہ متاثرین اور چین کے سیلاب زدگان سرِ فہرست ہیں۔ اگر جنوبی ایشیا کو دیکھا جائے تو اس خطے میں دو ہزار چودہ سے دو ہزار تئیس تک کے عرصے میں بیاسی لاکھ خانماں بربادوں میں سے تریپن لاکھ انسانوں کو تشدد اور مسلح بحرانوں کے سبب نقل مکانی کرنا پڑی۔جب کہ انتیس لاکھ جنوبی ایشیائی قدرتی آفات کے سبب تتربتر ہیں۔ جنگ بندی کے تین برس بعد بھی مصائب زدوں کی تعداد کے اعتبار سے افغانستان جنوبی ایشیا میں سرِ فہرست ہے۔وہاں لگ بھگ بیالیس لاکھ لوگ جنگ و جدل اور پندرہ لاکھ قدرتی آفات کے ہاتھوں اپنی جگہ چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔بھارت میں سوا چھ لاکھ انسانوں کو بدامنی نے اور نوے ہزار کو قدرتی آفات نے گھروں سے نکالا۔بنگلہ دیش میں چار لاکھ چھبیس ہزار متاثرین لا اینڈ آرڈر کی کمزوری سے اور پچپن ہزار سیلاب کے سبب اور نیپال میں تینتالیس ہزار لوگ ماحولیاتی ابتری کی وجہ سے بے گھری بھوگ رہے ہیں۔ پچھلے دو برس سے درجہ حرارت میں تغیر و تبدل کے سبب ایل نینو اثرات کی زد میں جنوبی ایشیا کا بھی خطہ ہے اور یہ اثرات بکثرت خشک سالی اور غیر معمولی سیلابوں کی شکل میں ظاہر ہو رہے ہیں۔ایل نینو لہر نے گزشتہ برس جنوبی ایشیا میں لگ بھگ ایک کروڑ بیس لاکھ انسانوں سے گھر چھین لیا۔ پاکستان میں دو ہزار بائیس سے دربدروں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔گزشتہ اور پیوستہ برس کے مون سون متاثرین میں سے اب بھی لگ بھگ بارہ لاکھ نہیں جانتے کہ ان کا مستقبل کیا ہے۔اگرچہ دو ہزار بائیس کے سیلاب متاثرین کے لیے حکومتِ سندھ نے بیس لاکھ گھروں کی تعمیر کا عزم کیا ہے۔مگر اب تک صرف ایک لاکھ گھر ہی تیار ہو سکے ہیں۔جو لوگ ازخود تباہ شدہ گھروں کو لوٹے ہیں ان کے پاس دوبارہ پاوں پر کھڑا ہونے کے لیے کافی معاشی ، تعلیمی اور صحت وسائل نہیں۔ سیلاب متاثرین کے لیے غذائیت بھی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ملک میں اس وقت کم ازکم ایک کروڑ پانچ لاکھ انسان غذائی عدم تحفظ کا سامنا کر رہے ہیں۔ جہاں تک بدامنی اور خانہ جنگی کے نتیجے میں دربدری کا معاملہ ہے تو گزشتہ برس جنوبی ایشیا میں لگ بھگ ستر ہزار مزید انسان بے گھر ہوئے۔اگرچہ یہ تعداد دو ہزار بائیس کے مقابلے میں کم ہے مگر افغانستان میں جنگ اور ابتر معاشی حالات سے تنگ آ کر جن افغانوں نے بڑے شہروں بالخصوص کابل کا رخ کیا تھا۔ان میں سے بیشتر کو طالبان نے کھدیڑ کر اپنے اپنے آبائی علاقوں میں دوبارہ جانے پر مجبور کر دیا ہے۔چونکہ افغانستان سے بہت کم اطلاعات آتی ہیں لہذا یہ کہنا مشکل ہے کہ ایسے کتنے دربدر ہیں جنھیں واپس ان صوبوں میں بھیجا جا رہا ہے جہاں سے وہ زندگی و معیشت سے تنگ آ کے نکلے تھے۔اگر آبائی صوبوں میں حالات اتنے ہی بہتر ہوتے تو گھر چھوڑتے ہی کیوں ؟ پاکستان میں بھی گزشتہ ایک برس سے افغان پناہ گزینوں کو وطن واپس بھیجنے کی مہم چل رہی ہے۔ دربدروں کی عالمی تعداد کے اعتبار سے افغان چھٹے نمبر پر ہیں۔پاکستانی حکومتی ذرایع کے مطابق اب تک چھ لاکھ سے زائد افغان مہاجرین رضاکارانہ یا سرکاری دباو کے سبب اپنے ملک لوٹ تو گئے ہیں مگر طالبان حکومت انھیں بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کے بجائے ناخوش ہے۔واپس لوٹنے والے متعدد مہاجرین پاکستان میں ہی پیدا ہوئے یا ہوش سنبھالا اور اب انھیں نہیں معلوم کہ افغانستان میں کہاں بسنا ہے۔ پاکستان کی نسبت افغان معیشت خاصی پتلی ہے۔لہذا بہت سے مہاجرین روزگاری آسرا نہ ہونے کے سبب بڑے شہروں کے مضافات میں پہلے سے موجود دربدروں کی تعداد میں اضافہ کر رہے ہیں۔لگتا ہے کہ بے خانمائی جلد ختم ہونے والی نہیں ۔ دوسری جانب سرحد پار گزرے دسمبر میں ضلع خیبر سے متصل سرحدی وادی تراہ میں شدت پسندوں کے خلاف ایک عسکری آپریشن کے سبب لگ بھگ بائیس سو قبائلیوں کو اپنے گاوں چھوڑنے پڑے۔ شمال مشرقی بھارتی ریاست منی پور میں گزشتہ برس تقریبا ستر ہزار کوکی قبائلی نسلی کشیدگی سے بچنے کے لیے ہمسایہ ریاست آسام ، ناگا لینڈ اور میزورم میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ ان میں سے بیشتر اب تک اپنے گھروں کو نہیں لوٹ سکے۔ انسانی جبلت کے سبب دنیا میں جھگڑے فساد ہمیشہ ہوتے رہیں گے۔لوگ بھی برباد ہوتے رہیں گے۔مگر دکھ اور تشویش یہ ہے کہ بیسویں کے مقابلے میں اکیسویں صدی زیادہ مہذب اور روادار ہونے کے بجائے زیادہ سفاک ثابت ہو رہی ہے۔انسانی و حیوانی دربدری سال ہا سال کم ہونے کے بجائے مسلسل بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔ ہر ریاست کے پاس اس بابت ٹھوس دلائل اور جواز بھی ہیں مگر جو کسی بھی قدرتی یا انسانی آفت کے سبب چھت یا سائے سے محروم ہو گیا۔اس کے لیے دنیا کی ہر دلیل بے معنی ہے۔
راستہ گھر کا بھول جانے پر
ٹوٹ پڑتا ہے آسمان میاں
٭٭٭