”ظلم قوموں کی کمزوری ”

0
40
جاوید رانا

قارئین کرام! عید الاضحیٰ کی مقدس عبادات وسنت ابراہیمی کی تکمیل اور حجاج کرام کے فریضہ ادائیگی حج پر دل کی گہرائیوں سے ہدیہ تبریک ودعائے مقبولیت ومبر وریت، فریضہ حج اسلام دین مبین کے پانچ فرائض میں سے ایک رکن اعظم اور صاحبان حیثیت واستطاعت امتیوں پر فرض ہے تو تمام فرزندان توحید پر سنت ابراہیم کی پیروی لازم ہے۔ یوم عرفہ پر امام کعبہ نے خطبہ حج میں دین اسلام کی تقدیس و ابدیت، امن وحسن سلوک اور اتحاد و یکجہتی کے حوالے سے کتاب مبین کے ارشادات پر حج مبارک اور سنت ابراہیمی پر عمل کو وحدت مسلمہ کا بین مظہر قرار دیا۔ کیا امت مسلمہ اس اہم نکتہ پر بحیثیت مجموعی عمل کر رہی ہے۔ جواب ہے کہ حج کے فریضے کی ادائیگی تو سعودی حکومت کی روئیت کے سبب تو بے شک من حیث الامت ایک دن ہی ہوتی ہے لیکن دیگر بعض ممالک میں روئیت کے مئوقف پر اختلاف پر امت کی یکجہتی تقسیم میں تبدیل ہوجاتی ہے تو بعض دفعہ فقہ ومسلک کی بنا پر منقسم نظر آتی ہے۔
شوال کے چاند کے حوالے سے تو عید کی نماز دو دن میں تقسیم ہونے کا سلسلہ امریکہ سمیت دیگر ممالک میں بھی عرصے سے جاری ہے، تاہم عید قرباں کے حوالے سے امریکہ میں صورتحال پہلی بار سامنے آئی۔ تحقیق کے مطابق ریاست الی نائے کے ساتھ دیگر ریاستوں میں بھی نماز عیدالاضحیٰ دو دن ادا کی گئی۔ وجہ اس اجمال کی روئیت کے اختلاف کے علاوہ اس مئوقف پر بھی ہے کہ عید الاضحیٰ کی نماز حج کے اتباع میں سنت ہے۔ اس تمام اختلاف وتقسیم کا نتیجہ اور کچھ ہو یا نہ ہو یہ حقیقت واضح ہے کہ دیگر مذاہب کے پیروکاروں کو امت مسلمہ کی اجتماعیت ویکجہتی کے فلسفے کا مذاق اڑانے کا نہ صرف موقع مل جاتا ہے، ان کا کردار بھی منتشر قوموں کے ساتھ کئے جانے کا ہوتا ہے خواہ انفرادی سطح پر ہو، معاشرتی لیول پر ہو یا بین المملکتی سطح پر ہو۔ اس وقت غزہ میں فلسطین کے عوام کا قتال، درندگی تباہی اسرائیل کے ہاتھوں اور بھارت میں مقبوضہ کشمیریوں کے اوپر مظالم اس امر کا مظہر ہیں کہ ہمارا اتحاد و اجتماعیت کا فلسفہ مجموعی طور پر اختلاف وتقسیم اور اپنے مقاصد کے تحت انفرادی سے قومی و مذہبی سچائی تک بہت دور جاچکا ہے۔ اپنے مفاد کی خاطر ہم بحیثیت امت ظلم کے خلاف عمل سے قاصر ہیں۔ تو اپنے ہی لوگوں پر ظلم وبربریت کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑتے ہیں۔
غزہ اور مقبوضہ کشمیر میں تو اسرائیل و بھارت کی نہتے مسلمانوں پر جارحیت، قتال اور ظلم ، مغربی ممالک و امریکہ کی حمایت سے تو مذہبی منافرت اور دشمنی سمجھ میں آتی ہے کہ مفادات میں گھری امت مسلمہ منتشر ومنقسم ہے لیکن جمہوریت کے حامل پاکستان میں سیاسی بنیادوں پر جو ظلم و جبر کا بازار گرم ہے اور وہ بھی ایسے ریاستی سربراہ کے ایما ومنشور کے تحت جو ملک وعوام کے تحفظ کی ضمانت بھی ہے اور حافظ ہونے کے ناطے احکامات دینی وشرعی سے بھی واقف ہے۔ اس ظلم وستم پر کیا کہا جائے۔ اس بربریت سے بلاتخصیص مرد، خواتین، بزرگ، نوجوان نسل کوئی بھی مبرا نہیں ہے۔ مقدمات، گرفتاریاں، غیر انسانی حرکات واقدامات غرض ہر طریقہ ظلم آزمایا جارہا ہے۔ عدالتوں سے بریت ضمانت و رہائی کے باوجود دوبارہ گرفتاریاں، ایذ ارسانی اور ذہنی ونفسیاتی طور پر دبائو میں رکھنا مظالم کا معمول بن چکا ہے۔10مئی2023ء سے مسلسل گرفتاریوں، رہائیوں کے بعد دوبارہ گرفتار کی جانے والی صنم جاوید کے والد نے چیف جسٹس آف پاکستان کی خدمت میں ایک خط میں جن غیر انسانی و منتقمانہ اقدامات کی تفصیل بیان کی ہے، سُن کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ تفصیل میں جائے بغیر صرف یہ تحریر کرنا ہے کہ صنم کو جب بھی عدالتی ریلیف ملے تو نیا کیس بنا کر گرفتاری کی جاتی ہے اور اسے حوالات یا جیل لے جانے کے برعکس پر زنر وین میں ہی محبوس رکھا جاتا ہے شدید گرمی اور تپتی ہوئی گاڑی میں بغیر کچھ کھائے پیئے گھنٹوں بعد جب حوالات لے جایا جاتا ہے تو وہاں کھانا ختم ہونے کا سندیسہ دیا جاتا ہے گویا24گھنٹے صنم کو بھوکا رکھا جاتا ہے۔ ظلم کا یہ طریقہ کسی مذہب، معاشرت یا اخلاقیات کے حوالے سے بدترین اور انسانیت کی توہین نہیں تو کیا ہے؟ ہمارے ذرائع کے مطابق اسی طرح کے ظالمانہ سلوک کینسر سروائیور ڈاکٹر سعدیہ راشد، عالیہ حمزہ، بلکہ تقریباً تمام محصورین و مقید پی ٹی آئی والوں کے ساتھ روا رکھے جارہے ہیں۔ شیخ رشید نے بھی اپنے چلّے کی روداد سناتے ہوئے واضح کیا ہے کہ دور ایوبی سے بی بی شہید کے دور تک جتنی قیود اور سزائیں بھگتی ہیں، حالیہ چلّہ سخت ترین وبھیانک رہا۔
ہمارے کالم کا بنیادی نکتہ دین مبین میں امن وآشتی اتحاد و اجتماعیت اور یکجہتی کی اہمیت اور تقسیم کے نتیجے میں کمزوری ودیگر اقوام وعقائد کے فائدے اور غالب آنے کے حوالے سے تھا لیکن جب اپنے ہی گھر کو آگ لگانے پر آمادہ ہوجائیں تو تکلیف زیادہ ہوتی ہے اور پہلی ترجیح اس آگ کو ٹھنڈا کرنے کی ہوتی ہے۔ وطن عزیز میں بربریت کا جو بازار گرم ہے اس پر کنٹرول تو شاید ہمارے اختیار میں نہ ہو لیکن ہم اپنا فریضہ نبھاتے ہوئے عرض کرتے رہیں گے۔ موجودہ سیاسی ماحول جو رُخ اختیار کر گیا ہے اور جس طرح اداروں میں خلیج گہری ہو رہی ہے، حالات کسی بھی طرح وطن وقوم کے لئے بہتری کا پیام نہیں دے رہے ہیں۔ ہم وطن کی مقتدرہ سے درخواست ہی کرسکتے ہیں کہ ظلم وبربریت کے اس ہنگام میں کم ازکم جبر واستبداد کے ان ہتھکنڈوں سے ہی گریز کرلیں یہ سوچیں کہ عورتوں اور بچوں کے لئے تو ہمارے مذہب میں نرمی، محبت اور صلہ رحمی کی بار بار تاکید آئی ہے۔ یہی سوچ لیں کہ ان کے گھروں میں بھی ماں، بیوی، بیٹی کے روپ میں خواتین ہیں۔ خدا نہ کرے کہ ان پر وہ وقت آئے کہ وہ اپنے باپ، بھائیوں، شوہر، بیٹوں سے علیحدہ اسیری کی زندگی گزاریں۔ ظلم کے نتائج کبھی منفعت بخش نہیں ہوتے۔ بقول ساحر لدھیانوی
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا
خاک صحرا یہ پے جمے یا کف قاتل پہ جمے
فرق انصاف پہ، یا پائے سلاسل پہ جمے
٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here