ہمارے ہیوسٹن کی کمیونٹی بھی عجیب ہے، یہاں کسی سے کچھ بعید نہیں ہے کل تک جن کے بارے میں کچھ سننے کو تیار نہیں تھے آج ان کیساتھ شریک نظر آرہے ہیں اور جو کل تک اپنے تھے دکھ درد میں شریک تھے آج ایک دوسرے کی صورت دیکھنے کے روادار نہیں ہیں یہ سب کیا ہے الیکشن تو آج ہیں کل نہیں ہونگے ہمیں رہنا تو اسی کمیونٹی میں ہے کل کو کسی کی شادی میں کسی کی موت میں آمنا سامنا ہوگا اس وقت کتنی شرمندگی ہوگی کس دلسے ہاتھ ملائیں گے، پی اے جی ایچ میں اب آخر ایسے کونسے سُرخاب کے پر نکل آئے ہیں جس کو حاصل کرنے کیلئے وہ لوگ جو پہلے مردہ ہاتھی کہہ کر الیکشن چھوڑ کر چلے گئے تھے اب وہ دوبارہ اسی مردہ ہاتھی میں جان ڈالنے کیلئے سرگرم عمل ہیں اور ہماری کمیونٹی پھر سے بٹ گئی ہے، بڑے عرصہ کے بعد کمیونٹی ایک ہوئی تھی اور سب ایک دوسرے کی تقریبات میں شرکت کر رہے تھے، سب کو حق ہے کہ وہ اپنا اپنا کردار ادا کریں کیونکہ پورے امریکہ میں شاید یہی ایک پاکستان سنٹر ہے جو پاکستان کے نام پر بنا ہے اور یہ صرف ہیوسٹن کو ہی اعزاز حاصل ہوا ہے اور اسی سنٹر میں بہت کام ہوئے ہیں اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ ہماری کمیونٹی نے آپس کے اختلافات کو ختم نہیں کیا، ایک صدر غلط ہو سکتا ہے، لیکن پی اے جی ایچ ایک ایسی تنظیم ہے جس کا نام پورے امریکہ میں لیا جاتا ہے، لوگ خراب ہو سکتے ہیں جس طرح پاکستان میں ہو رہا ہے حکومت خراب ہے لیکن ہم اپنے ملک کو خراب نہیں کہہ سکتے یہی حال پی اے جی ایچ کا ہے، وہان پچھلے سولہ سالوں سے کام نہیں ہوا کام اس لیے نہیں ہوا کہ لوگوں نے اس میں حصہ نہیں لیا ہمارے ہیوسٹن میں ایک گروپ تو ایسا ہے جس نے شاید پاکستان سنٹر میں قدم بھی نہیں رکھا جب ایسا ماحول ہو جائے تو پھر خیر کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے یقیناً 100 % لوگ تو پی اے جی ایچ کو پسند نہیں کر سکتے کچھ نہ کچھ تو مخالفت کرینگے ہی لیکن مخالفت تنقیدی ہونی چاہیے نہ کہ ایک دوسرے کی پرسنل فائلیں کھولنی شروع کردی جائیں۔ پچھلے 3 سالوں میں ہمارے صدر ہارون شیخ نے کافی کام کیا ہے اور گھاٹے میں جانے والی ایسوسی ایشن کو آج ایک اچھی رقم کیساتھ رکھا ہوا ہے کنسٹرکشن بھی کروائی ہے اور اس وقت ہمارے سنٹر کی ویلیو 3.5 ملین ہے اور ایک لاکھ ڈالر اکائونٹ میں موجود ہے، کیا یہی وجہ ہے اب پی اے جی ایچ پر سب کی نظریں ہیں، ہمیں صرف یہ دیکھنا ہے کہ کس نے کیا کام کیا ہے اور کون اس ایسوسی ایشن کو آگے لے جا سکتا ہے۔ اس وقت دو گروپ ایک ساتھ ہو گئے ہیں ایک گروپ جس میں کوئی بنانے یا نہ بنانے ایک نام ایسا ہے جس کا نام سنتے ہی لوگ سمجھ جاتے ہیں کیونکہ ہماری کمیونٹی میں جو کام اس شخص نے کئے ہیں اس سے ان کے دشمن بھی انکار نہیں کر سکتے ہاں یہ بات ضرور ہے اپنی ذاتی رنجشوں کی وجہ سے ضرور دل میں عداوت رکھتے ہیں وہ تو پچھلے بیس سالوں سے خاموش بیٹھا ہوا تھا آخر اس کو دوبارہ کیوں آنا پڑ گیا،یہ سوال ضرور لوگوں کے ذہنوں میں اُٹھتا ہے، غلام محمد بمبئے والا کا کوئی مقابلہ نہیں ہے آپ ضرور الیکشن لڑیں لیکن ایک دوسرے کیخلاف محاذ آرائی نہ کریں اور دونوں طرف سے جو سلسلہ چل رہا ہے اس کو بند ہونا چاہیے اور یہ ذمہ داری پارٹی لیڈر کی ہے کہ وہ ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی نہ کریں الیکشن پر دھیاند یں اپنے اپنے کارنامے ضرور گنوائیں ہو سکتا ہے کہ وہ کمیونٹی کو یکجا کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ اختلاف ضرور کریں دشمنی نہ کریں۔ تنقید ضرور کریں بدتمیزی نہ کریں، سیاست کریں، نفرت نہ کریں، ہر کسی کا احترام کریں۔ میں تو یہ دیکھ رہا ہوں کہ اس الیکشن میں ایسے ایسے دوست ایک دوسرے کیخلاف ہو گئے ہیں جو فیملی ممبران تھے ارے بھائی کوئی اختلاف تھا بھی تو بیٹھ کر بات چیت سے حل کر لیتے اس طرح کمیونٹی میں مذاق تو نہ بنتا، کیونکہ یہ کمیونٹی بہت چھوٹی ہے سب کو معلوم ہے کہ کس کیساتھ کس کے تعلقات کیسے ہیں، ماضٰ کی اچھی باتوں کو یاد رکھئے، برائی کو بھول جائیں اس میں اتحاد ہے کس منہ سے ایک دوسرے کو السلام و علیکم کروگے۔ ایمانداری سے دیکھیں کہ کون اس قابل ہے اس نے کیا کام کئے ہیں اپنے دل سے پوچھ کر اس کو ووٹ دیں جو اس کا صحیح حقدار ہو الیکشن تک اپنے آپ کو ٹھنڈا رکھیں اس کے بعد سب مل جل کر کمیونٹی کی خدمت کریں اس سے بالا تر ہو کر کہ کون کس کے ساتھ ہے اس الیکشن میں ایک بات تو ہوئی ہے سب کچھ کھل کر سامنے آگیا ہے صرف سب کو اپنے اپنے اندر جھانکنا چاہیے کہ ہم نے کیا کھویا کیا پایا، ویسے میں تو اپنا کالم لکھ چکا تھا مگر مجبوراً یہ لکھنا پڑ رہا ہے کہ اتوار کو الیکشن کے سلسلے میں امیدواروں کے درمیان پی اے جی ایچ کے الیکشن کمیشن نے ایک میٹ اینڈ گریٹ رکھی تھی ایسی ہی ایک تقریب نائب صدر کے انتخابات کے موقع پر ہوئی تھی اور ہمارے موجودہ صدر انتخاب میں حصہ لینے والے اس الیکشن سے دستبردار ہو گئے تھے کہ ایسے ماحول میں میں کام نہیں کر سکتا، آج تو تمام حدیں پار ہو گئیں کیا کچھ نہیں ہوا مجھے تو لکھتے ہوئے شرم آرہی ہے جو جو حرکتیں ہمارے سمجھدار لوگوں نے وہاں کیں اس وقت کسی کو خواتین کا بھی خیال نہیں آیا، دونوں طرف سے نعرے بازی ہوتی رہی کوئی سننے کو تیار نہیں تھا کیونکہ حق کو برداشت کرنا بہت مشکل کام ہے ، سب اپنا اپنا منشور پیش کر تے مگر وہاں تو معاملہ صدارت کا تھا، اس سے پہلے تمام امیدواران نے اچھی باتیں کیں خاص طور پر جنرل سیکرٹری امیدوار عامر عسکری نے جس طرح ایک دوسرے کیساتھ مل جل کر کام کرنے کی باتیں کیں اس سے ایک اچھا ماحول بن گیا تھا، پھر طاہر ماما اور عابد نقوی اپنی اپنی باتیں کیں لیکن جب غلام محمد بمبئے والا نے اپنے کام گنوانے شروع کئے تو نعرے شروع ہو گئے کیونکہ حقیقت برداشت نہیں ہو رہی تھی الیکشن کمیشن کو بار بار مداخلت کرنی پڑی اور دو افراد کو باہر بھی نکالا گیا ہم پاکستانی واقعی اس قابل ہیں کہ ان کو آزادی دی جائے پھر گلہ کرتے ہیں کہ 18 سال کچھ نہیں کیا یہی وجوہات ہیں شاید جو لوگ پی اے جی ایچ میں آنے سے کتراتے تھے اس لیے سلیکشن ہوتے رہے اب جبکہ ایک امید نظر آرہی ہے کہ الیکشن میں جو بھی جیتے گا وہ کام کرے گا اور ایک دوسرے کیساتھ مل کر کام کریگا لیکن میں تو یہ سمجھ رہا ہوں کہ الیکشن کے دن تو کسی کو ہار برداشت نہیں ہوگی اگر یہی ماحول رہا اب دیکھنا یہ ہے کہ اس تمام تر کارروائی کے بعد ہمارے امیدواروں کا کیا رد عمل ہوگا کہ ا اس الیکشن کا بھی بائیکاٹ کیا جائیگا ورنہ الیکشن کمیشن کو سخت اقدامات کرنے ہونگے تاکہ ووٹنگ والے دن کوئی ہنگامہ نہ ہو۔ جس طرح غلام محمد بمبئے والا کی گاڑی کا ٹائر پھاڑا گیا ،اس سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ارادے خطرناک ہیں جو ہمیں زیب نہیں دیتا۔ اللہ تعالیٰ ہماری کمیونٹی کو عقل و شعور عطاء کرے تاکہ وہ سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کہہ سکیں، ہمارا اللہ حافظ و ناصر ہو۔
٭٭٭