عالمی بینک نے پاکستان میں رواں برس غربت کی شرح 40.5 فیصد ہونے کی پیش گوئی کی ہے۔عالمی بینک نے معاشی استحکام پیدا کرنے کے لئے سیاسی اتفاق رائے اور آئی ایم ایف پروگرام پر عملدرآمد لازمی قرار دیا ہے۔عالمی بینک کی ڈویلپمنٹ اپ ڈیٹ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں ہر سال سولہ لاکھ نوجوان روزگار کی مارکیٹ میں آ رہے ہیں لیکن ان کے پاس ملازمت یا کاروبار کے مواقع دستیاب نہیں ۔ رپورٹ میں مالی طور پر غیر مستحکم توانائی کے شعبے کو معیشت کے لئے خطرہ قرار دیا گیا ہے۔پاکستان کو اگلے دو برس میں بائیس ارب ڈالر کی فنانسنگ درکار ہو گی۔ عالمی بینک، آئی ایم ایف ، ایشیائی ترقیاتی بینک اور دوسرے بین الاقوامی مالیاتی ادارے پاکستان کی مالیاتی ضروریات اور معاشی بحالی کے متعلق جائزے وقفے وقفے سے پیش کرتے رہتے ہیں۔اصولی طور پر ان جائزوں،تجاویز اور رپورٹس پر کھل کر بات ہونی چاہیئے لیکن بوجوہ ایسا نہیں ہو پاتا۔پاکستان کی حکومتیں، مالیاتی و تجارتی ادارے اور تھنک ٹینک ان رپورٹس کو وہ توجہ نہیں دے پاتے جس کی ضرورت ہے۔تفصیلی مباحث نہ ہونے سے عالمی اداروں کے اٹھائے نکات اور مقامی موقف کے درمیان مطابقت پیدا نہیں ہو پاتی۔عالمی بینک کی زیر تبصرہ رپورٹ اسی طرز عمل کی نذر ہو سکتی ہے کہ اس رپورٹ کو حکومت اپنی کارکردگی پر سوال کے تناظر میں دیکھتی ہے حالنکہ یہ کسی ایک حکومت کا مسئلہ نہیں ،تمام حکومتیں اس غفلت کا حصہ رہی ہیں۔ہاں اصلاح کا آغاز موجودہ حکومت کر سکے تو اس کی نیک نامی ہو سکتی ہے۔کچھ معاشی استحکام کے باوجود مہنگائی کے حالیہ جھٹکوں کے دوران غربت میں قدرے اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان نے 2001 اور 2018 کے درمیان غربت میں کمی کی جانب نمایاں پیش رفت کی جس میں زرعی معاشی مواقع کا بڑھنا اور بیرونی ترسیلات زر میں اضافہ ہوا ۔ تاہم، اس کا مکمل طور پر بہتر سماجی و اقتصادی حالات کو فائدہ نہیں ہوا۔ پاکستان بھر میں سکول جانے کی عمر کے ایک تہائی سے زیادہ بچے سکول سے باہر پائے گئے۔گزشتہ مالی سال میں سکول جانے والوں میں سے تقریبا دو تہائی تعلیم سے محروم رہے۔ سٹنٹنگ کی خطرناک حد تک بلند شرح مالی سال 23 20میں 40 فیصد تک جا پہنچی۔معاشی بہتری میں اہم رکاوٹیں، بشمول بار بار ہونے والے مالیاتی اور کرنٹ اکاونٹ خسارے، سکیورٹی پسند تجارتی پالیسیاں، غیر پیداواری زراعت، مشکل کاروباری ماحول، معیشت میں ریاست کی نمایاں موجودگی اور مالی طور پر غیر مستحکم توانائی کا شعبہ، بڑی حد تک دور نہیں کی جا سکیں ۔ اس کی وجہ سے ترقی کی رفتار سست اور غیر مستحکم ہے۔ کورونا کی وباکے دوران، 2022 کے تباہ کن سیلاب ، معاشی اتار چڑھاو اور سیاسی عدم استحکام سے غربت میں اضافہ ہوا ہے۔حالیہ دنوں سپیشل انوسٹمنٹ فیسلی ٹیشن کونسل کے کردار اور حکومتی سطح پر دوست ممالک کے ساتھ فعال رابطوں کی وجہ سے پاکستان نے میکرو اکنامک استحکام کی جانب پیش رفت کی ہے لیکن اب بھی خطرات بہت زیادہ ہیں ۔پاکستان کو تیز رفتار پائیدار ترقی کے لیے خاطر خواہ اصلاحات کی ضرورت ہوگی۔ مالی سال 24 20کے آغاز میں معیشت کو سیاسی غیر یقینی پن، عالمی مالیاتی پالیسی میں سختی اور مالیاتی اور بیرونی عدم توازن کی وجہ سے ممکنہ اقتصادی بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ جس کی وجہ سے مقامی قیمتوں اور زر مبادلہ ذخائر پر دباو پڑا۔زر مبادلہ ذخائر کو محفوظ رکھنے کے لیے، درآمدات اور سرمائے کے اخراج کو منظم کرنے کے اقدامات متعارف کروائے گئے۔اس سے مقامی سپلائی چین، اقتصادی سرگرمیاں متاثر ہوئیں اور افراط زر کے دباو میں اضافہ ہوا۔ عبوری حکومت کے تحت، جولائی 2023 میں آئی ایم ایف کے سٹینڈ بائی ارینجمنٹ کی منظوری دی گئی۔ نتیجتا شرح مبادلہ میں لچک بحال کی گئی، درآمدی کنٹرول میں نرمی کی گئی اور مالیاتی خسارے پر قابو پانے کے لیے اقدامات کیے گئے۔ عام انتخابات کے انعقاد سے سیاسی بے یقینی کسی حد تک کم ہوئی لیکن تنازعات کاباعث بننے والے معاملات پر سیاسی قوتیں ہنوز یکسو نہیں ہو رہیں۔ سازگار موسمی حالات اور بیرونی حالات میں موافقت کے ساتھ، مالی سال 24 میں معیشت کی بحالی شروع ہوئی ہے۔ نتیجتا، فیکٹر لاگت پر حقیقی جی ڈی پی کی نمو مالی سال 24 میں 2.5 فیصد ہونے کا تخمینہ لگایا گیا ہے جبکہ مالی سال 23 میں 0.2 فیصد تھی۔ حکومت میکرو اکنامک استحکام اور اہم ڈھانچہ جاتی اصلاحات کی جانب پیش رفت کو برقرار رکھتے ہوئے ایک چیلنجنگ معاشی ماحول کا سامنا کر رہی ہے۔ آوٹ لک کے لیے منفی خطرات بہت زیادہ ہیں، بحالی کے جاری رہنے کی توقع ہے لیکن آئی ایم ایف کے نئے قرض پروگرام کے ٹریک پر رہنے اور اضافی بیرونی مالی امداد کے بہاو پر بہتری کی پیش گوئی کی جا رہی ہے۔ مسلسل مالیاتی کنٹرول سے مجموعی طلب، آمدنی، روزگار، اور غربت کے خاتمے میں کمی آسکتی ہے۔ خودمختار، ڈومیسٹک پالیسی کی غیر یقینی صورتحال، وفاقی وصوبائی حکومت کی سیاسی غلط فہمیوں اور جغرافیائی سیاسی عدم استحکام کے سامنے بھاری بینکنگ سیکٹر کی رونمائی اہم خطرات کا باعث ہے۔ ان خطرات کو سنبھالنے کے لیے، اقتصادی بحالی کے لیے واضح حکمت عملی اور موثر طریقے سے پالیسی لاگو کرنے سمیت، مجموعی اقتصادی انتظام اور مارکیٹ کے رجحان پر عمل کرنا اہم ہوگا۔حکومتی اخراجات میں کمی اور کسی بھی نوع کے نئے اخراجات کو احتیاط سے شامل کرنا ہوگا ۔بلاشبہ غریب طبقات نا قابل برداشت دباو کا شکار ہیں۔حکومتی کوششیں ناکافی ثابت ہو رہی ہیں لیکن حکومت ٹریک پر رہے تو خاطر خواہ بہتری کے اثرات غربت میں کمی کی شکل میں برآمد ہو سکتے ہیں۔۔
٭٭٭