شہنشاہ قوال نصرت فتح علی خان کو مداحوں سے بچھڑے 22 برس بیت گئے

0
331

شہنشاہ قوال نصرت فتح علی خان کو مداحوں سے بچھڑے 22 برس بیت گئے

شہنشاہ قوال نصرت فتح علی خان کو مداحوں سے بچھڑے 22 برس بیت گئے
شیئرٹویٹ
ویب ڈیسک  جمعـء 16 اگست 2019

شیئرٹویٹشیئرای میلتبصرےمزید شیئر

نصرت فتح علی خان قوالی اورلوک موسیقی میں اپنی پہچان آپ تھے فوٹوفائل

شہنشاہ قوال استاد نصرت فتح علی خان کی آج 22 ویں برسی منائی جارہی ہے۔

1948 میں فیصل آباد میں معروف قوال فتح علی خان کے گھر پیدا ہونے والے نصرت فتح علی خان قوالی اورلوک موسیقی میں اپنی پہچان آپ تھے۔ نصرت فتح علی خان کا پہلا تعارف خاندان کے دیگرافراد کی گائی ہوئی قوالیوں سے ہوا۔ ’’حق علی مولا علی‘‘ اور ’’دم مست قلندرمست مست‘‘ نے انہیں شناخت عطا کی۔

موسیقی میں نئی جہتوں کی وجہ سے ان کی شہرت پاکستان سے نکل کرپوری دنیا میں پھیل گئی۔ بین الاقومی سطح پر صحیح معنوں میں ان کا تخلیق کیا ہوا پہلا شاہکار 1995 میں ریلیز ہونے والی فلم’’ڈیڈ مین واکنگ‘‘ تھا جس کے بعد انہوں نے ہالی ووڈ کی ایک اور فلم ’’دی لاسٹ ٹیمپٹیشن آف کرائسٹ‘‘ کی بھی موسیقی ترتیب دی۔

 

استاد نصرت فتح علی خاں نے فن موسیقی کی روحانی کیفیات کے ذریعے پوری دنیا کو مرید بنائے رکھا۔ عالمی سطح پر جتنی شہرت انھیں ملی وہ شاید کسی اور موسیقار یا گلوکار نصیب نہیں ہوئی۔ بحثیت قوال ان کے 125 آڈیو البم ریلیز ہوئے جو ایک ورلڈ ریکارڈ ہے۔ ان البمز میں ’’دم مست قلندر مست ‘‘، ’’علی مولا علی‘‘، ’’یہ جو ہلکا ہلکا سرور ہے‘‘، ’’میرا پیاگھر آیا‘‘،’’اللہ ہو اللہ ہو‘‘، کینا سوہنا تینوں رب نے بنایا‘‘ سمیت کئی یادگار قوالیاں اور گیت شامل ہیں۔

نصرت فتح علی خاں نے بالی ووڈ کی کئی فلموں کی موسیقی ترتیب دینے کے ساتھ اپنی آواز کا جادو بھی جگایا جس میں ’’اور پیار ہوگیا‘‘، ’’کچے دھاگے‘‘ اور ’’کارتوس‘‘ شامل ہیں۔ نصرت فتح علی خاں کے فن کی تعریف ملکہ ترنم نورجہاں، شنہشاہِ غزل مہدی حسن اور لتا منگیشکر جیسے گائیک نے بھی کی۔ انھیں گیت، غزل ، قوالی ،کلاسیکل، نیم کلاسیکل پر مکمل عبور حاصل تھا۔ نصرت فتح علی خاں نے اپنے فن کو اسلام کی تبلیغ کا ذریعہ بنایا اور دنیا بھر میں بے شمار غیر مسلموں کو مسلمان کیا۔

وہ حقیقی معنوں میں پاکستان کے بہترین سفیر تھے کہ جہاں لفظ’’پاکستان‘‘ سے لوگ ناواقف تھے وہاں پاکستان کو ایک عظیم ملک کے طور پر متعارف کرایا۔  موسیقارایم ارشد نے کہا کہ وہ لاجواب آرٹسٹ اورمیوزک کو سمجھنے والے آدمی تھے۔ ان جیسے فنکار صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ وہ موسیقی کے ماتھے کا جھومر تھے تو بے جا نہ ہوگا۔

نصرت فتح علی خاں جگراورگردوں کے عارضہ میں مبتلا تھے جس کے باعث لندن کے ایک اسپتال میں زیر علاج تھے جہاں بالآخر 16 اگست 1997ء کو دنیا سے رخصت ہوگئے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here