اگرچہ افغانستان کے نام نہاد جہادی اور فسادی یا طالبان پاکستان میں باقاعدہ پیدا کئے گئے ہیں جن کو امریکی پرانی جنگ میں استعمال کیا گیا ہے جوآج سانپ سے اژدھا بن چکے ہیں جنہوں نے اپنی احسان فرموشی کی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے وہی کچھ کیا ہے جس کا ذکر صدیوں پہلے شیخ مہدی نے کیا تھا کہ اگر قحط دجال زمین استانہ سہ گیری اوّل افغان، دوم اور سوم سوالیہ نشان ہے لہٰذا جن کا نظریہ توسیع پسندی مان لیا جائے تو پھر پورا بھارت اور پاکستان، بنگلہ دیش طالبان کے حوالے کرنا پڑے گا کہ یہاں کبھی ان کے حملہ آور غوریوں ،غزنویوں، لودھیوں، ابدالیوں، درانیوں اور نہ جانے کون کون حملہ آور لوٹ مار کے لئے حملے کرتے رہے ہیں۔ یہ سلسلہ پھر کبھی نہیں رُکے گا کہ جب سلطنت گفتان کے یہودی پورا فلسطین، شام، اُردن، عراق اور سعودی عرب پر اپنا حق جتوا رہے ہیں کہ ہم ان علاقوں پر قابض تھے۔ خلافت راشدہ، عباسیہ، فاطمی اور عثمانیہ کا بھی آدھی دنیا پر قبضہ تھا، چیئرمین یورپ، اسپین، افریقہ، بخارا تک پھیلی ہوئی تھیں جس کے بعد نوآبادتی کے مالکان برطانوی فرانسیسی، اطالوی، ولندیزی، پرتگالی، ہسپانوی کا بھی حق بن جائے گا کہ پوری دنیا کی نوآبادیاتی ریاستوں کے سابقہ حاکم رہے ہیں جو ان کے حوالے کی جائیں جن پر وہ صدیوں حکمران بنے رہے ہیں۔ ماضی کے رومن سلطنت، سکندریہ سلطنت بھی روم، یونان سے مصر، ایران اور ہندوستان تک اپنی حاکمیت کا کلیم کرسکتے ہیںپھر طالبان کو ٹیکسلا کے راجہ اشوک اعظم کا فتح کردہ کا بل پاکستان کے حوالے کرنا پڑے گا جب کابل گپتا خاندان کا حصہ تھا۔
بہتر یہی ہے کہ طالبان ماضی کو مت چھیڑیں ورنہ اشوک اعظم کا کابل اور رنجیت سنگھ کا جلال آباد نہ دینا پڑے جس کے بعد افغانوں کو واپس اپنی یہودی نسل کے لوگوں کے پاس نہ جانا پڑے، ان کا بارہواں قبیلہ افغانوں اور کشمیریوں کی شکل میں مل چکا ہے جس طرح انہوں نے ایریا ٹیریا کے سیاہ فام یہودی دریافت کر لیئے ہیں لہٰذا طالبان کو تاریخ کو نہیں چھیڑنا چاہئے کہ ماضی میں جو کچھ ہوا ہے وہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس تھی جب کوئی جغرافیہ تھا صرف اور صرف طاقت تھی جب کمزور اور ناتواں لوگ طاقت میں رہے تو انہوں نے صدیوں پرانی غلامی کو ترک کرکے آج کا چین، بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا ،مصر اور دوسرے ممالک بن چکے ہیں جنہوں نے صدیوں کے ظلم وستم، لوٹ مار، قتل وغارت گری سے آزادی حاصل کی ہے جو اب اپنی آزادی کبھی نہیں کھوہ پائیں گے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا افغانستان اس وقت موجود تھا جب سکندر لیٹرے نے ہندوستان پر حملہ کیا جس کا مقابلہ دریائے اٹک کے مقام پر راجہ پورس نے کیا تھا یا اشوکاعظم کے وقت آج کا افغانستان بدھ مت کا گڑہ تھا۔ اس لئے طالبان کو عہد جدید میں پاکستان کے علاقوں پر قبضوں کے خواب دیکھنا بند کر دینا چاہئے جو دن بدن روس اور امریکہ کی شکست کا شوروغل مچاتے تھکتے نہیں یہ جانتے ہوئے کہ اگر پاکستان جہادی یا فسادی پیدا نہ کرنا یا پاکستانی مدرسے طالبان نہ پیدا کرتے تو آج افغانستان پر روس نواز یا امریکہ نواز حکومتیں برقرار رہتیں جس طرح آج عراق اور لیبیا میں امریکہ نواز حکومتیں قائم ہیں وہ ادارہ جو جہادی اور طالبان پیدا کرسکتا ہے ،وہ انہیں تباہ بھی کرسکتا ہے بہتر یہی ہے کہ طالبان افغان چکوال تک علاقے لینے کے خواب دیکھنا بند کردیں، یہ علاقے پاکستان کے غیور پٹھانوں کے ہیں جو پورے برصغیر میں آباد ہیں۔ بہرحال افغانستان میں روس اور امریکہ کو کوئی شکست نہیں ہوئی تھی۔ روس کا1987میں جنیوا معاہدے کے بعد انخلا ہوا تھا جس میں افغانستان میں تمام گروہوں جھتوں قبائلوں پر مشتمل ایک مشترکہ حکومت کا قیام تھا جس سے افغانوں نے حسب عادت انحراف کیا تھا جو خانہ جنگی کا باعث بنا تھا۔ جب امریکہ نے اعلان کیا کہ قطر معاہدے کے تحت افغانستان چھوڑ رہا ہے جو پورا ایک مہینہ امریکہ اپنے اتحادیوں کو افغانستان سے انخلا کرتا رہا جو شکست نہ تھی ایک معاہدہ تھا امریکہ کو شکست فاش ویٹ نام میں ہوئی تھی جب امریکہ اپنی آخری فلائیٹ کے ذریعے سب کچھ چھوڑ کر بھاگا تھا۔ طالبان پاکستان کے پیدا کردہ ہیں جنہوں نے کل بھی امریکہ کے لئے جنگ لڑی تھی آج بھی امریکہ کے اشارے اور اسلحے پر حملے کر رہے ہیں جس کے نتائج بھیانک نکل سکتے ہیں جب پچاس لاکھ افغانوں کو ملک بدر کیا جائے گا جو افغانستان دوبارہ خوفناک خانہ جنگی کا شکار ہوجائے گا۔
٭٭٭٭٭