ہم نے بزرگوں سے سنا ہے، کتابوں میں پڑھا ہے کہ رمضان المبارک میں شیطان کو بند کر دیا جاتا ہے لیکن دور حاضر میں تو یہ احساس ہوتا ہے کہ شیطان تو قید کر دیا جاتا ہے لیکن اس کے چیلے شیطانی کاموں کیلئے کُھلے پھرتے ہیں اور ہر وہ کام کرتے ہیں جس میں شیطینیت کا عنصر بدرجۂ اتم موجود ہوتا ہے۔ اس تماشے میں صاحبان ایمان و غیروں کی کوئی تخصیص نہیں بلکہ بقول مرزا غالب، ”ہوتا ہے شب و روز تماشہ میرے آگے”۔ اس تماشے میں کوئی حدود نہیں امریکہ سے وطن عزیز تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ سیاسی معاملات سے مذہبی منافقت تک کوئی شعبہ ایسا نہیں جہاں شیطانیت اور بدگمانی کا دور دورہ نہ ہو۔ 11مارچ کی شام اس ماہ مبارک میں بلوچستان لبریشن آرمی کا پشاور جانے والی جعفر ایکسپریس پر حملہ100سے زائد افراد کا اغواء ،متعدد اکتال جن میں فوج،ایجنسیز اور سویلین شامل تھے ایسا واقعہ ہے جو انسانیت اور مذہب کے حوالے سے نہایت قابل نفرت و مذمت ہی کہا جاسکتا ہے۔مارنے والے دہشت گرد بھی مسلم ہونے کے دعویدار اور متاثرین بھی دین کی فرزند۔حملہ آور پاکستان اور پاکستانیت کے دشمن اور عساکر کے خلاف عمل پیرا۔کہنے کو تو اس دہشت گردی پر قابو پالیا گیا لیکن کیا بھارت وافغانستان کے پالتو دہشت گردوں کی اس واردات کو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور ایجنسیز کی ناکامی قرار نہیں دیا جانا چاہیے۔مقتدرہ و فوجی سربراہ کی ساری توجہ دہشت گردی کے خاتمے کے برعکس صرف عمران خان سے ذاتی انتقام پر ہے اور دشمنوں کو دہشت گردی کا کھلا موقع مل رہا ہے۔ یہ منافقات پاکستان اور عسکری قوتوں کے ساتھ عوام دشمنی نہیں تو کیا ہے۔ہم نے اپنے گزشہ دو کالموں فتنہ کون اور عالمی جنگ یا عالمی بلاک میں وطن عزیز اور عالمی اُفق پر ہونیوالے مفاداتی و خود غرضانہ رویوں اور اقدامات کی نشاندہی کی تھی، ہمیں امید تھی کہ کم از کم وطن عزیز میں اس ماہ مبارک کے طفیل کچھ سکون ہوگا اور منافرت و دوغلے پن سے اجتناب کیا جائیگا لیکن ایں خیال است و محال است جنوں، وہی منافقت، مخالفت، دہشت اور دشمنی کا رویہ جاری ہے۔ غالب کے الفاط میں شب و روز ہونیوالا تماشہ پاکستان میں ہی نہیں امریکی صدر کے طفیل عالمی سطح پر بھی جاری ہے۔ ہم نے اپنے گزشتہ کالم میں ٹرمپ اور زیلنسکی کے درمیان تنازعتی کیفیت کے تناظر میں واضح کیا تھا کہ ٹرمپ کی شہرت ڈیل کے حوالے سے ہے، اس میں یہ اضافہ کیا جا سکتا ہے کہ دو رُخی فطرت ہونے کے سبب جہاں ڈیل سے کام نہ چلے تو بات دھونس دھمکی تک پہنچتی ہے، ساتھ ہی پابندیوں، ٹیرف (ٹیکس) اور سخت رویوں تک پہنچتی ہے۔ اس کی تازہ ترین مثالیں ایران کو ڈیل کی پیشکش اور خامنہ ای کے ڈیل سے انکار پر سخت رویہ اپنانے، پاکستان کے داعش لیڈر شریف اللہ کی گرفتاری میں تعاون پر شکریہ اور دوسری جانب پاکستانیوں کے امریکہ داخلے پر پابندی کی خبر نیز امریکی شہریوں کے کے پی اور بلوچستان کے سفر (جانے) سے گریز کی ایڈوائس دوغلے پن کا واضح مظہر ہے۔ بھارت کے وزیر اعظم کی امریکہ آمد پر محبت کی پینگیں اور دوسری جانب ٹیرف کی کہانی ٹرمپ کی دو رُخی کی ایک اور مثال بنتی ہے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ ٹرمپ کے اقدامات دراصل امریکی ایڈمنسٹریشن کی پالیسی کے تناظر میں ہوتے ہیں تو گزشتہ ہفتے وائٹ ہائوس میں ہونیوالے اجلاس میں ٹرمپ کے چہیتے ایلون مسک اور سیکرٹری خارجہ و دیگر سیکرٹریز کے درمیان تنازعہ خصوصاً گورنمنٹ (وفاقی) ملازمین کی فراغت کس بات کی نشاندہی ہے جبکہ ٹرمپ خاموش رہا بلکہ کسی حد تک سیکرٹری کی حمایت کی۔ دراصل یہ سب بھی دو رُخی ہی تھی کہ مسک بھی راضی رہے اور ایڈمنسٹریشن بھی خوش رہے۔
دوغلے پن کا منظر نامہ پاکستان میں اس حد تک سرایت کر چکا ہے کہ حکومت، حزب اختلاف اور انتظامیہ و میڈیا کیساتھ مذہبی و معاشرتی شعبے اور عوام اس سے مبّرا نہیں۔ آئے دن ایسے مظاہر وطن عزیز میں سامنے آتے ہیں۔ مفادات کے تحت جھوٹ بولنا، دھوکہ بازی، غلیظ، بے بنیاد پروپیگنڈہ اور دوسروں کو غلط ثابت کرنے کیلئے مذہب و اخلاق کی تواضع آرڈر آف دی سمجھا جاتا ہے۔ صورتحال کی وضاحت کی جائے تو صفحات بھر جائینگے۔ دوغلے پن اور اغراض کے تحت سب سے بڑا ایشو ملک کی سب سے بڑی سیاست اور عوامی قبولیت کی جماعت کیساتھ اس کے رہنما کیخلاف قید و بند، فسطائیت کا طویل سلسلہ اور انصاف و انسانی حقوق کی پامالی ہے تو دوسرا دہشتگردی کا بھوت ہے، کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب وطن کے بیٹوں کی شہادت کی خبریں نہ آتی ہوں۔ گزشتہ دنوں بنوں میں فوجی علاقے میں اور بلوچستان میں پولیس تھانے پر حملہ اس کی تازہ ترین مثالیں ہیں لیکن حکومت اور اصل حکمرانوں کیلئے موجودہ نظام کا تسلسل زیادہ اہمیت ہے، وفاقی کابینہ میں توسیع اور پرویز خٹک کی بطور مشیر داخلہ نامزدگی، کے پی سے تحریک انصاف کا زور توڑنے کی سازش نہیں تو اور کیا ہے۔ عمران دشمنی میں دو رُخی اگر حکومتی حلقوں میں جاری ہے تو دوسری طرف سوشل میڈیا کے پیدا کردہ مذہبی ٹھیکیدار علی مرزا جیسے مولوی دین، نماز، تراویح و عبادت کے حوالوں سے عام مسلمانوں کو ذہنی کشمکش کا شکار بنا رہے ہیں۔ یہی نہیں علی مرزا نے تو عمران ریاض اور آفتاب اقبال سے سیاسی حوالے سے بھی لفظی جنگ، چھیڑی ہوئی ہے اور اس کا ہدف عمران اور پی ٹی آئی ہیں۔
افسوس کی بات تو یہ ہے کہ دو رخی اور منافقت کا زہر اب پی ٹی آئی میں بھی دراڑ کی صورت میں نظر آرہا ہے۔ عمران خان حق و انصاف کی پاداش میں قید و بند اور سختیاں جھیل رہا ہے اور کھلی فضائوں میں ہر سہولت و آزادی کے حامل لیڈران عمران خان کی رہائی کی جدوجہد کے برعکس اس کا نام لے کر گروپ بندی، عمران کی ہدایات و تجاویز کے بہانے جوڑ توڑ میں مصروف ہیں۔ گرینڈ اپوزیشن الائنس کے حوالے سے مولانا فضل الرحمن کے معاملات پر متضاد بیانات ہوں، اڈیالہ پر دھرنے کے معاملات کی منسوخی یا نکالے گئے مروت کی بیان بازیاں، کیا یہ سب عمران کے حق میں ہیں یا مقتدرین و حکومت کے حق میں جانیوالے روئیے کہ جنہیں دو رخی، دوغلے پن سے یا منافقت سے ہی عبارت کیا جا سکتا ہے۔ خدا خیر کرے۔
٭٭٭٭٭٭