پاک سرزمین، شادباد!!!

0
112
کامل احمر

ہمارے خیال میں کسی بھی ملک کا قومی ترانہ آنے والے وقت کی نشان دہی اور گزرے وقت کی ترجمانی ہوتا ہے۔ قومی ترانہ ایک عورت کے جھومر کی طرح ہے جو شادی شدہ ہے اور اپنے پہلو میں بچوں، شوہر اور عزیزوں کو لے کر چلتی ہے۔ سب سے مختصر ترانہ جاپان کا ہے۔ اور ملک اور تاریخ کی ترجمانی آپ کو امریکہ کے قومی ترانے میں ملتی ہے۔ اور یہ جان کر آپ حیران ہونگے اسپین کے قومی ترانے میں کوئی الفاظ نہیں صرف موسیقی کے سہارے حب الوطنی کا جذبہ ابھارا ہے۔ فٹ بال کے ورلڈکپ کے مقابلے کے انعقاد پر جب کھلاڑیوں نے قومی ترانے پر آواز نہیں نکالی تب لوگوں کو پتہ چلا کہ بغیر الفاظ کے ہے۔ اسی طرح ہندوستان کا قومی ترانہ جیسے ابندر ناتھ ٹیگور نے لکھا تھا موسیقی کے سروں کی آمیزش سے بنا ہے”جانا گانا مانا” پہلے یہ ہنگامی زبان میں لکھا گیا تھا لیکن1950میں اسمبلی نے اسے ہندی میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا۔ قومی ترانہ جذبہ حب الوطنی کو ابھارتا ہے اور اسکی تعظم ہر شہری کا فرض ہوتا ہے۔ اب ہم بات کرتے ہیں حفیظ جالندھری کے لکھے پاکستانی قومی ترانہ کی جس میں فارسی عربی اور اردو کی آمیزش ہے اسکول میں کلاسیں شروع ہونے سے پہلے یہ ترانہ تمام طلباء کورس کی شکل میں گاتے تھے۔ اسے سن کر گردن اکڑ جاتی تھی سر بلند ہو جاتا تھا اور محسوس ہوتا تھا کہ ہم ایک آزاد ملک کے شہری ہیں سب سے زیادہ جذبہ حب الوطنی ایوب خان کے دور میں جگایا گیا قوم ایک بن گئی تھی۔25کی جنگ میں اس وقت ہر کوئی پاکستانی تھا۔ اور آج کئی دہائیوں کے بعد ہم ایک قوم نہیں رہے ہیں۔ اور یہ حقیقت ہے ایک قوم بنانا اور ایک دوسرے کا احترام قومی کا لیڈر جو حکمران ہوتا ہے وہ ہی سکھاتا ہے خود اچھے کام اور اور کردار سے لوگ اسکی عزت کرتے ہیں۔ ایوب خان کے جانے کے بعد لگا ملک بکھرنے لگا ہے بھٹو، نواز شریف، بینظیر، زرداری اور عمران تک آتے آتے عوام بٹ چکے تھے ان کی سوچیں بدل چکی تھیں وہ خود کو سندھی، پنجابی، پٹھان، بلوچی اور سرائیکی کہنے لگے تھے۔ حکمرانوں کے طور طریقے لوٹ مار اور انصاف کی فراہمی پر تالہ ڈالنا تھا۔ پولیس کو اپنے ذاتی مفاد اور عدلیہ کو گھر کی لونڈی بنانا تھا اور چرائی ہوئی دولت کے عیوض ان سب اداروں کی خریدوفروخت جانوروں کی طرح ہونے لگی تھی۔ کرپٹ لوگوں نے خود کو مافیا سے بھی زیادہ خطرناک بنا کر عوام کو خوفزدہ کردیا تھا اور آج یہ سب انتہائی عروج پر ہے منی لانڈرنگ برسوں سے جاری جس کے نتیجے میں ڈالر کی ڈیمانڈ بڑھی اور مارکیٹ میں ڈالر دو سو بیالیس سے اوپر چلا گیا۔ عدلیہ کو ان کی کرپشن کے مقدمات میں مصروف رکھا لیکن نتائج زیرو رہے۔ گورنمنٹ کے آفیسز میں رشوت عام ہو کر ناقابل ادائیگی بنی کورٹ میں چھوٹے بڑے مقدمات بڑھتے رہے۔ تاریخ پر تاریخیں اور شہباز شریف کی حکومت میں صحافیوں مخالف سیاستدانوں کو اغوا اور ان پر تشدد عام ہوا ذرا ذرا سی بات پر توہین عدالت یا فوج کی خلاف بغاوت کا ڈھنڈورا پیٹا گیا کہ عام آدمی کا جینا محال ہوگیا یہ ماضی کی بات نہیں بلکہ یہ جاری ہے اور اضافہ ہو رہا ہے۔ فوج(جنرل، کرنل) جو ان حالات میں عوام کی محافظ ہوتی ہے خاموش دم دبائے اپنے آقائوں کے حکم پابند رہے اس تمام عرصہ میں ملک کا انفراسٹرکچر سڑکیں ریلوے، تعلیم، عدلیہ، سب کچھ بگڑ گیا اور پھر اللہ تعالیٰ نے پانی کا سیلاب لا کر ان حکمرانوں اور چوروں کو ننگا کر دیا اپنے کرتوت چھپانے کے لئے الزام موسمیاتی تبدیلی کو دی اپنی نااہلی کا ذکر نہیں کیا صرف یہ مثال کافی ہے کہ سندھ کے ایک جاہل سیاست دان نے کالا باغ ڈیم کی مخالفت میں کہا کہ میری لاش پر ہی بنے گا اور اس کو یہ بھی میسر نہیں کہ اپنے لوگوں کو حفاظتی مقامات پر لے جائے منہ چھپا کے کہیں بیٹھا ہے۔ اسکے علاوہ اس ملک میں جو مذہب کا پرچم لے کر چلا تھا تاریکی میں دھکیل دیا عوام کو تعلیم کے میدان میں سب سے پیچھے چھوڑ کر ملک کے صوبوں میں کئی نصاب ہیں آرمی کے اسکول اور عام پبلک اسکول کے علاوہ انگریزی اسکول پرائیویٹ ہیں اور بزنس کے طور پر چلائے جاتے ہیں صرف اشرفیہ کے بچے ہی جاسکتے ہیں۔
یہ ساری باتیں لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ ملک کی تنزلی سیاست دانوں کی ضرورت سے زیادہ کرپشن کے نتیجے میں ہوئی کہ اب ملک کا قومی ترانہ ”پاک سر زمین شادباد” سنتے وقت کوئی جذبہ نہیں جاگتا جب یہ ترانہ لکھا گیا تھا تو سب کچھ ایسا ہی تھا جو ترانے میں تھا اور اسکول کے بچے کو یاد تھا ایک کہاوت ہے بچے اپنے ہی اچھے ،ہم کہتے تھے ترانہ اپنا ہی اچھا۔ اس کے لفظی معنی بتاتے چلیں مقدس سرزمین ہمیشہ سرور رہے۔ کشور حسین شادباد مطلب یہ کہ یہ خوبصورت مملکت ہمیشہ خوش وخرم رہے لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ تو نشان عظیم عالیشان کا مطلب تو بلند ہمتی کا نشان ہے۔ قوم پست ہمت ہوچکی ہے ایک کے بعد ایک لیٹرا، جاہل اور کرپٹ آتا ہے اور وہ عوام کی ہمتوں کو پستی کی طرف لے جاتا ہے، آگے ہے ”مرکز یقین شاد باد” مطلب ہے ایمان کا یہ مرکز ہمیشہ سلامت رہے۔ یہاں تک آتے آتے ایمان کمزور ہوچکا ہے، کتنے خوبصورت بول ہیں
پاک سرزمین کا نظام
قوت اخوت، عوام
قوم ملک سلطنت
اب لوگوں کے دلوں میں باہمی محبت ختم ہے۔ اور آگے پڑھیں لکھا ہے ترجمان ماضی شان حال” ماضی کی تعبیر اور آج کی عظمت، دل سے پوچھیں کیا ایسا ہے اگر ماضی اسپین اور ترکی ہے تو ہماری اپنی تاریخ کیا ہے ، ہم سے مراد حکمرانوں سے سوال ہے کہ انکے ذہن میں یہ سب کچھ نہیں آیا۔ اس ترانے کو حفیظ جالندھری نے خوبصورت الفاظ سے سجایا ہے، کاش! ایسا سب کچھ ہوتا تو دلوں میں حب الوطنی اور سر اونچا اُٹھا کر چلنے کی عادت بنتی ہے۔ فخر بنتا ہے لیکن اب ہمارے پاس فخر کرنے کی کوئی چیز نہیں۔ اس کا اندازہ کیجئے کہ سب کے سب بھیک مانگ رہے ہیں اور پورا سندھ پانی میں ڈوبا ہوا ہے ،غیر ممالک میں بسنے والے پاکستانیوں نے دل کھول کر چندہ دیا ہے لیکن کیا حکومت عوام کو اس ناگہانی آفت سے بچانے کے قابل ہے، ابھی تک بڑے چوروں میں سے کسی نے اپنی جیب خالی نہیں کی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیشن میں آئے جہاز بھرکے پاکستانی حکمران اور فالتو لوگوں کے علاوہ صحافی حضرات بھی تفریح کے طور پر آئے ہیں۔ وہیں پی ٹی آئی سے جڑے اور عمران کے چاہنے والے احتجاج کر رہے ہیں ہم نے فیس بک پر کچھ تصاویر کے ساتھ لکھا چار پانچ سو لوگ ہونگے ایک بزرگ نے پوچھا ”کیا آپ نے گنتی کی تھی” یہ ہے ہماری سوچ کا عالم سوال تعداد سے زیادہ ضمیر کی آواز پر چلنے کا ہے، آپ کا ضمیر گوارہ کرتا ہے کہ چوروں اور سند یافتہ ڈاکوئوں کا راج چلے، ان سب کو قلع قمع ہونا چاہئے۔ ملک ”پاک سرزمین شادباد”ہونا چاہئے، اور باجوہ صاحب کو شرم آنی چاہئے!۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here