ترقی یافتہ ممالک کی تنظیم جی سیون کا اجلاس اپنے قیام کی 44 سالہ تاریخ میں پہلی بار کوئی متفقہ اعلامیہ جاری کئے بغیر ختم ہو گیا ہے۔ 1970ءمیں آئل انڈسٹری کے کولیپس ہونے کے اندیشوں پر غورو فکر کے لئے دنیا کے آٹھ امیر ترین ممالک نے گروپ 8 تشکیل دیا تھا مگر 2014ءمیں کریمیا کے تنازع کو لے کر 7 بڑوں نے روس کو تنظیم سے نکال دیا اور اس کے بعد ہونے والے اجلاسوں میں دنیا کی 62 فیصد دولت پر قابض ممالک میں عالمی امور پر باہمی اختلافات سامنے آنا شروع ہو گئے۔ 2018ءکے اجلاس میں امریکی صدر نے ماحولیاتی تبدیلیوں کے لئے فنڈز جاری کرنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا تھا کہ ماحولیاتی تبدیلی امریکیوں کا مسئلہ ہی نہیں۔ سات بڑوں کے اجلاس میں اس بار جہاں چین امریکہ تجارتی جنگ کے اختلافات کھل کر سامنے آئے ہیں وہاں ایران امریکہ کشیدگی کے باعث اس تنظیم کی افادیت کے ساتھ تنظیمی ڈھانچہ بھی تحلیل ہوتا محسوس ہوتا ہے۔ اس تنظیم کو دولت مند ممالک کے مفادات کے تحفظ کی تنظیم کہنا اس لئے بھی غلط نہ ہو گا کہ اس بار تنظیم میں کشمیر کے بارے میں بات تک نہ کی گئی۔ بہتر ہو گا دنیا کی سات بڑی معیشتوں کے حامل ممالک اپنے معاشی مفادات کے تحفظ اور باہمی کشمکش کے بجائے اس تنظیم کو عالمی تنازعات کے بارے میں باہمی غورو فکر اور مشاورت کے لئے بھی استعمال کریں تاکہ دیگر کمزور ممالک کے مفادات پر غورو فکر ممکن ہو سکے۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی فرانس میں ٹرمپ سے ملے تو ٹرمپ ان سے ایسے ملے جیسے وہ کمبھ میں بچھڑے ہوئے ان کے بھائی ہوں۔ باہمی لطیفوں کا تبادلہ ہوا، ہاتھ پر ہاتھ مارے گئے۔ اس موقع پر امریکی صدر نے پاکستان بھارت تنازعات کا نہایت آسان حل پیش فرمایا۔ کہا، دونوں ملک آپس میں مل کر اپنے تنازعات حل کر لیں۔ حیرت ہے، اتنا زبردست حل پہلے کسی امریکی صدر کے دماغ میں کیوں نہیں آیا۔ لگتا ہے، پاکستان کی طرح امریکہ میں بھی مدبر اور وڑنری قیادت آ گئی ہے۔ ٹرمپ نے افغانستان میں بھارت کے بطور ”کرٹیکل پارٹنر“ کے اہم کردار کو تسلیم کیا اور سراہا۔ امریکہ نے افغانستان سے نکلنا تو ہے ہی، لیکن جاتے جاتے وہ وہاں بھارت کی سٹیک ہولڈری کا کلا گاڑ کر جائے گا اور اس کے لیے بھارت نے وہاں بہت سا ہوم ورک پہلے ہی کر رکھا ہے۔ اس کی بہت مضبوط لابی موجود ہے۔ شمالی اتحاد والے ہی نہیں، پشتون بیلٹ میں بھی اس کی وسیع لابی ہے۔ ایران کی لابی ہے، پھر روس کی ہے اور چین کی اور ترک نسل کے جملہ علاقوں(ازبک، تاجکن کرغیز) میں ترکی کی لابی بھی بہت مضبوط ہے۔ یعنی خطے کے سبھی ممالک کی لابیاں موجود ہیں۔ سوائے ایک ملک کے۔ رات کو سوت کات کر دن کو بخیے ادھیڑ کر رکھ دینے والی بڑھیا کی طرح لابی تو اس ملک نے بھی بنائی لیکن بنا کر بگاڑی، اتفاق سے اس ملک کا نام یاد نہیں آ رہا۔ آپ کو پتہ ہو تو آگاہ فرمائیں۔کسی نے لکھا ہے کہ کشمیر پر عالمی برادری(بشمول اسلامی برادری) بھارت کے ساتھ اس لیے ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی بہت سے سربراہوں سے خود مل چکے ہیں۔ ان کے وزیر خارجہ نے چالیس دارالحکومتوں کے دورے کیے۔ یہی ایک اکیلی وجہ تو نہیں ہو سکتی اس لیے کہ ٹویٹ تو ہم نے بھی بہت کیے۔ اڑھائی درجن تو خود وزیر اعظم نے کیے، وزیر خارجہ نے الگ کیے۔ دراصل ہمارے پیچھے رہ جانے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ ہمیں کچھ زیادہ ضروری مسئلے اور مہمات درپیش تھیں۔ کشمیر تو ضمنی مسئلہ ہے، ہمیں اصولی اور بنیادی چیلنج نمٹانے تھے۔ اوپر والے کا کرم کہ وہ زیادہ تر ہم نے نمٹا دیئے۔ مثلاً نواز کے بعد مریم کو بھی پکڑنا تھا، پکڑ لیا۔ نواز کی تشویش کی بیماری کا علاج روکنا تھا، روک لیا( ابی ”اچھی“ خبر کا انتظار ہے)۔ شاہد خاقان اور مفتاح کو پکڑنا تھا، پکڑ لیا۔ رانا ثناءکو دھرنا تھا، دھر لیا۔ زرداری کو نماز عید پڑھنے سے روکنا تھا، روک لیا۔ فریال تالپور کو آدھی رات ہسپتال سے اٹھا کر جیل ڈالنا تھا، ڈال لیا۔ پریس کو پابند کرنا تھا کہ ”مثبت خبروں“ کے سوا کچھ نہ چھاپے، کر لیا۔ شریف خاندان کے اثاثے منجمد کرنا تھے کر لیے۔ اب تازہ معرکہ شریف خاندان کو ان کے کاروباری اداروں کے منافعے کی وصولی سے روکنا ہے، آج کل یہ فتح بھی حاصل ہو جائے گی۔ اسی طرح کی چند کرٹیکل فتوحات مزید درکار ہیں، وہ مل جائیں پھر کشمیر اور معیشت وغیرہ کے فروعی اور ضمنی ایشو پر توجہ دینے کے لیے وقت نکال ہی لیں گے۔ ہاں، اسی دوران ایک مہم اور بھی سر ہوئی ہے۔ منظور نظر چند سرمایہ داروں کے ذمے 208ارب روپے کی سرکاری رقم معاف کروائی گئی ہے۔ مستحق تھے اور مستحقین کی مدد ریاست نہیں کرے گی تو کون کرے گا۔ ممکن ہے ان مستحق سرمایہ داروں کو بینظیر انکم سپورٹ سے وظیفے بھی جاری ہو جائیں۔ قومی خزانے کو ذرا سا نقصان پہنچا تو کیا غم، کسی بھی ملک سے جب چاہے قرضہ لے کر خزانے کا گھر پورا کر دیں گے۔ سنا ہے ان سرمایہ کاروں نے 2014ئ کے دھرنوں میں بہت کچھ فی سبیل اللہ مدد کی تھی۔
٭٭٭