قارئین وطن! میرے کشمیر کو آپ کے کشمیر کو ہندو توا کی آگ میں جلتے جلتے 25 دن ہو گئے ہیں۔ اور ہم پاکستانیوں کی جانب دیکھیں تو ایسا لگتا ہے جیسے ہم ایک دن اپنے کشمیری بہن بھائیوں کے ساتھ صرف ایک دن کی یکجہتی کا مظاہرہ ہمارے فرائض منصبی میں تھا۔ ورنہ کوئی دن ایسا نہیں گزرا ان 25 دنوں میں کہ ہم نے اپنا ناچ گانا اور اوچھل کُود کا تماشہ نہ لگایا ہو۔ ہمارے دوست رانا رمضان فرماتے ہیں کہ کشمیر کا فیصلہ ہو گیا ہے اور یہ فیصلہ جنرل مشرف کے دور حکومت میں ہو گیا ہے اور تم سردار نصر اللہ کچھ دنوں میں سُن لو گے کہ جنرل پرویز مشرف کےساتھ ہونے والے معاہدے کے تحت فیصلہ سنا دیا جائےگا کہ کشمیر ہندوستان کے حوالے کر دیا جائےگا۔ تو میں ان سے لڑ پڑتا ہوں لیکن جب زمینی حقائق پر نظر پڑتی ہیں تو ان کی کہی ہوئی باتیں حقیقت معلوم ہوتی ہیں۔
جب میں اپنے حکمرانوں اور اپنے ہم وطنوں کی بے حسی دیکھتا ہوں تو میرا رانا رمضان کی نیگیٹو باتوں پر یقین ہونے لگتا ہے کہ شاید کہیں کشمیریوں کی قسمت کا فیصلہ ہو گیا ہے اور خاص طور پر جب میں وطن عزیز کے ٹی وی اینکروں کے مائنڈ سیٹ کو سنتا ہوں کہ پاکستان حالت جنگ میں ہے اور یہ قوم کو ڈی مورو لائز کر رہے ہیں اور خاص طور پر چوروں، ڈاکوﺅں اور قومی وسائل کے لوٹنے والوں کو اپوزیشن لیڈر بنا کر پیش کر رہے ہیں جبکہ اس وقت ہمیں ایک قوم بن کر مودی کے ہندوتوا کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑا ہونا چاہیے اور شاید یہی وجہ ہے کہ آج عالم اسلام کی بے حسی کا مظاہرہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ قارئین وطن! آج جب وطن عزیز کے ڈپلومیٹک کور کی طرف دیکھتا ہوں تو شرمندگی کے سواءکچھ نہیں ملتا۔ ہم اپنے امریکہ میں یو ایس مشن کو ہی دیکھ لیں مجھے آج تک اس راز کی سمجھ نہیں آئی کہ کیا وجہ ہے کہ ملیحہ لودھی میں کیا خاصیت ہے سوائے کہ وہ ایک اخبار کی مُدیر رہی ہیں لیکن اس کی کارکردگی صفر بٹا صفر رہی ہے اور ناچ گانے اور چند شو پوائنٹ کو ساتھ ملا کر سفارتی میدان میں کوئی خاص ایسا کام نہیں کیا۔ آج مجھے شدت سے جمشید مارکر جو امریکہ میں سفیر اور یو این او مشن میں بھی سفیر کا کردار ادا کر چکے ہیں جمشید مارکر ایک پارسی ہونے کے ناطے جس طرح امریکہ کے ایوانوں اور یونائیٹڈ نیشن میں نمائندگی کر چکے ہیں انہوں نے پاکستان کا حق نمک ادا کیا ہے۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ کہ وہ کمیونٹی کو ساتھ لے کر چلتے تھے اور ہر موقع پر اُن کو بریف کرتے تھے۔ جمشید مارکر! وی مس یو ایٹ یونائیٹڈ نیشنز، یقین جانئے اگر جمشید مارکر زندہ ہوتے تو ہمیں عالم اسلام کی یہ صورت نظر نہ آتی لیکن یہ خاتون تو نرالی ہے کہ پاکستان میں کئی حکومتیں بدل چکی ہیں سول اور ملٹری لیکن ملیحہ لودھی کس مخصوص لابی کو سرو کر رہی ہے۔ اللہ کشمیریوں اور پاکستان کا خود ہی محافظ ہو، ورنہ مخصوص ایجنڈے پر قائم رہنے والی سفیرہ ملیحہ لودھی سے کوئی بڑی توقع نہ رکھی جائے۔
قارئین وطن! آج دنیا میں سب کو معلوم ہے کہ گلوبل ویلیج ایک مفادات کا گھر بن چکا ہے اور یونائیٹڈ نیشنز ایک ٹاکنگ کلب کے سواءکچھ نہیں ہے آج جی سیون ، جی ایٹ گلوبل ویلیج کے دوکانداروں کے مفادات کا بازار ہے جہاں قوموں اور مظلوموں سے کوئی واسطہ نہیں ہے اور ان کے نیچے کام کرنے والی ہیومن رائٹس کی انجمنوں نے کشمیر کے بہتے ہوئے خون پر جو چُپ کا روزہ رکھا ہوا ہے اور انہوں نے ہندوستان کی بربریت پر جو خاموشی اختیار کی ہوئی ہے ایک سوالیہ نشان بنا ہوا ہے ان تمام آپشنوں کو دیکھنے اور سننے کے بعد اب ایک ہی آپشن ہے اور وہ ہے لوہے کو لوہے سے کاٹنا، ہمارے مرحوم نواب زادہ نصراللہ نے کشمیر کمیٹی کا چیئرمین ہونے کے ناطے جو سب سے بڑا کام کیا وہ یہ شعر دے گئے !
کب اشک بہانے سے کٹی ہے شب ہجراں
اور کب کوئی بلا صرف، دعاﺅں سے ٹلی ہے
قارئین وطن! نیویارک میں کمیونٹی کے ایک معتبر رہنما جو کشمیری بھی ہیں سردار سوار خان کا میسج آیا کہ کیپٹن شاہین بٹ کی رہنمائی میں کشمیریوں کے حق میں مظاہرہ کرنا ہے۔ یونائیٹڈ نیشن کے سامنے، ہماری بد قسمتی کا عالم کہ اب کشمیر کی آزادی کے لیے اور یکجہتی کے لیے رہنمائی کا انحطاط کہ اب منی لانڈرنگ کنگ، شہباز شریف کی کرپشن کا فرنٹ مین اور نیب سے بچنے کیلئے سینیٹ میں اپنا ووٹ عمران خان کو فروخت کرنے کے سواءاور کوئی چارہ نہیں شہباز شریف نے اس کرپٹ کو سینکڑوں کارکنوں کے جذبات اور خدمات کا خون کر کے اس کو ٹکٹ دیا تھا جس کا یہ حال اس نے کیا۔
قارئین وطن! ان واقعات میں اپنی لیڈر شپ کا جائزہ لیں کہ ہم ایک قوم کی حیثیت کہاں کھڑے ہیں!
٭٭٭