جرنلوں سے رابطہ استوار رکھ !!!

0
100
سردار محمد نصراللہ

قارئین وطن ! پاکستان کی سیاسی صورت حال ہر دن اتنی تیزی سے بدل رہی ہے کہ اتنی تیزی کے ساتھ تو پلوں کے نیچے سے پانی نہیں گزرتا ابھی ایک موضوع کے بارے سوچتا ہوں تو دوسرا تیار ہوتا ہے بعض موضوع یا واقعات ایسے ہوتے ہیں کہ آدمی سوچتا ہی رہتا ہے کہ یہ کیا ہو رہا ہے اور کیونکر جس دن سے میں نے پرائم ٹی وی پر اور پھر سوشل میڈیا پر پاکستان کے فلیگ کیریئر برطانیہ میں ہائی کمشنر نے نواز شریف جس کو پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ نے مجرم کرار دیا ہے سے ملاقات کی۔ ہر پاکستانی ہائی کمشنر کی اس حرکت پر شرمندہ ہیں حالانکہ کمشنر صاحب کو حکم دینے والوں کو شرمندہ ہونا چاہئیے۔ اب سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اس نا معقول حرکت کی اجازت کس نے دی صدرِ مملکت ڈاکٹر علوی، قائم مقام وزیر اعظم کاکڑ، جرنل عاصم منیر یا چیف جسٹس قاضی صاحب یا ان میں سے کسی کو کسی باہر والی سرکار نے حکم دیا کہ پاکستانیوں کو بتا کہ توہیں کس کو کہتے ہیں ایسی توہیں تو مردہ سے مردہ قوم بھی نہیں برداش کرتی تو ہم نے منحیث القوم کیسے اتنی توہین ہضم کر لی۔ میں تو ابھی تک اس صدمہ سے باہر نہیں نکلا کہ عالم ارواح میں قائد اعظم اور ان کے رفقا ہائی کمشنر اور اس سے یہ حرکت کروانے والوں سے کے قوم کو لوٹنے والے مجرم کو پروٹوکول دلوانے والوں پر نازاں و شرمندہ ہوں گے کہ یہ ملک تو اس لئے نہیں بنایا تھا کہ مجرموں کو سلوٹ اور نیک لوگوں پابند سلا سل۔
قارئین وطن ! اب حق تو یہ بنتا ہے حکمرانوں کی اس سازش کے خلاف تمام جیلوں میں بیرون ملک بھیجنے سے پہلے سفیران اور ہائی کمشنرز کی ڈیوٹی لگائیں کے وہ ہر قیدی کو سلام کر کے تعینات ملکوں کے حکمرانوں کو اپنے اسناد پیش کریں اس حرکت سے ہر قیدی کا حوصلہ بلند ہو گا اور وہ اور زور شور سے قوم کو لوٹیں گے اور امید رکھیں گے کہ کوئی قبر سے ضیاالحق اٹھے گا اور ان کے کاندھے پر ہما بٹھا دے گا بس اب ہر مجرم اسی امید کے ساتھ زندہ رہیں اپنے مرشد علامہ اقبال سے بڑی معافی کے ساتھ !
جرنلوں کے ساتھ رابطہ استوار رکھ
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
سوشل میڈیا پر نئے اور پرانے اینکروں اور تجزیہ نگار کے وی لاگز مجرم کی آمد کے حوالے سے رنگین مزاج خبریں اور تجزئے پیش کرتے ہیں کہ بعض پر ہنسی آتی ہے اور بعض پر رونا خاص طور پر کچھ پرانے جب کچھ بتا رہے ہوتے ہیں یقین جانئیے صاف صاف نظر آتا ہے کہ تازہ تازہ لمبے لمبے لفافے جیبوں کے بجائے ہاتھوں میں تھمائے گئے ہیں۔ خیر آجکل کا دور پراپیگنڈے کا دور ہے اور ن لیگ کارپوریشن کے مالک میاں نواز شریف کے پاس تو منوں کے حساب سے قوم کی لوٹی ہوئی دولت ہے اور وہ چوتھی بار کیا دسویں بار بھی وزیر لوٹِ اعظم کا منصب سنبھالنے کا حق رکھتے ہیں۔ مجھے حیرت ہے کہ ابھی تک کسی مجیب ارحمان شامی یا سلمان غنی نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ نواز شریف سعودی عرب نہیں بلکہ فلسطین اور اسرائیل کی جنگ رکوانے جارہا ہے اور اس کے بعد جرنل راحیل جو چالیس ملکوں کی فوج کا کمانڈر ہے کا کان کھینچھے گا کہ ابھی تک تم نے کیوں کچھ نہیں کیا ظاہر ہے برطانیہ میں پاکستان کے ہائی کمشنر نے جس طرح مجرم کو پروٹوکول دیا ہے اس سے تو عام آدمی یہی مطلب لے گا کے اس کے پاس فلسطین اور اسرائیل کی جنگ رکوانے کا منسب بھی اس بہادر جننے کو مل گیا ہے۔ جس زمانے میں عراق اور ایران کی جنگ ہو رہی تھی استاد محترم عطا الحق قاسمی نے جنگ یا نوائے وقت میں نواز شریف کے لئے ایک کالم درج کیا جس کا عنوان تھا نواز شریف کتنا بہادر جنا ہے کہ اوپر عراق کے بمبار جہاز اڑ رہے تھے اور نیچے ایران کے لڑاکا طیارے اور نواز شریف کا طیارہ دونوں کے بیچ میں صلاح کرنے کے مقصد سے اڑ رہا تھا واہ واہ ابھی تک کسی لفافے نے نواز کی اس بہادری کو بیان نہیں کیا۔
قارئین وطن ! یہ اسرائیل اور حماس کی پہلی جنگ نہیں ہے پچھلے سالوں سے ہمیں امریکہ کے کردار کے بارے میں معلوم ہے وہ نہ صرف اپنی دولت کے دروازے کھولتے ہیں بلکہ تمام عسکری فورس کے ساتھ ان کے پیچھے ہوتے ہیں لیکن چین روس اور تمام اسلامی ملک اپنے اپنے مفادات کی نگرانی کو پہلے دیکھتے ہیں اور ہم ایک دوسرے کو مورد الزام لگاتے رہتے ہیں کہ کون کیا کہ رہا ہے اور ادھر بیچارے فلسطینی بچے بوڑھے جوان زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں سچ تو یہ ہے کہ یہودی بچے بھی جان سے ہاتھ دوھو رہے ہیں تمام اسلامی ملکوں کو آگے بڑھ کر اس جنگ کو روکنے کے لئے اپنا موثر کردار ادا کریں یہی پیغام جلی ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here