خیر کی لذت !!!

0
68

چکھ کر ذائقے کا لُطف آئے تو اسے لذت کہتے ہیں۔ کھانے میں لذت ہو تو مزا آتا ہے مگر ضبط نہ ہو تو پیٹ پہ کھانا گراں گزرتا ہے۔ بات کی لذت ہو تو دِل کو سُرور آتا ہے مگر نیک عمل کی لذت رُوح کو تسکین دیتی ہے اور ہر دفعہ یاد آنے پہ وہی سُرور تسکین کی لذت محُسوس کرتا ہے۔ اسکے برعکس، حَسد، لالچ اور بغُض کی لذت فقط خوُد غرض کو ہی محسوس ہوتی ہے۔ یعنی جو چیز یا صنف انسان کے پاس دینے کو زیادہ ہو اور وہی بانٹے تو اُسکو لذت کا درجہ مل جاتا ہے۔ خیر اور شر کی اپنی لذت ہوتی ہے۔ شَر میں ندی کے سیلاب کا رُتبہ حاسد کو، دریا کے سیلاب کا رُتبہ فساد پھیلانے والے کو اور سمندر کی سونامی والا رُتبہ لالچی کو ملتا ہے۔ اِسی لئے حَسد، فساد باہر اور لالچ اپنی ہوَس کی لذت کے لیے اندر و باہر ہر جگہ فساد پھیلاتی ہے۔ لالچ کا سمندر کبھی نہیں بھرتا۔ خیر نیکی کرنے اور پھیلانے کو کہتے ہیں۔ خیر کی لذت جنت کے اُس میٹھے پھل کی مانند ہے جسکو جو کھائے وہ عش عش کر اُٹھے اور جب یاد کرے تو مَن میں سکوُن کی لذت محُسوس کرے۔ جبکہ، شر وہ جذبات، اعمال اور قُوت ہے جو پہلے خُود کو اپنی آگ کی لپیٹ میں لیتی ہے اور بعد میں گھر، پڑوس اور معاشرے میں پھیل جاتی ہے۔ یاد رہے شیطان بھی آگ ہے اور حَسرت، حَسد، لالچ، فساد اور نفرت پھیلاتا ہے۔ ہمارے گریبان تراز ولٹکائے ایک طرف خیر اور دوسری طرف شر کے اعمال لیے ہر وقت اَپ ڈیٹ ہوتے رہتے ہیں اور درخت کے پتوں تک کا حساب لینے والے رَب کے پاس یہ ڈیٹا اصل نیت اور وزن کے مطابق ہر وقت موجود ہوتا ہے۔ تاہم ہماری اطلاع کے لیے اُسکے فرشتے بھی گواہ کے طور پہ معمور رہتے ہیں۔ شرپسند لوگ اُن فرشتوں پہ یقین بالکل نہیں رکھتے اور خُدا کے احکامات کو جھٹلاتے رہتے ہیں۔ ہمیں اپنے قول و فعل ذائقے کو میٹھا کرنے کے لیے اقدار و کردار بہتر کرنے ہونگے تاکہ ہماری شخصیت میں لذت آئے اور ملنے والا ہمارے اخلاق و کردار کی گواہی دے۔ یہی گواہیاں ہماری زندگی اور آخرت میں کامیابی کی ضمانت ہیں۔ سیرت و کردار میں لذت لانے یا نہ لانے کا فیصلہ اور عمل ہمارا ہے!۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here