ایشیا کرکٹ کپ فائنل ایک شاندار ایونٹ تھا، لیکن اس کے اختتام پر بھارتی ٹیم نے ایسا عمل کیا جس نے کھیل کے تقدس پر بدنما داغ لگا دیا۔ جیتنے کے باوجود بھارتی کھلاڑیوں نے پاکستانی وزیر کے ہاتھوں ٹرافی وصول کرنے سے انکار کر کے نہ صرف اخلاقی اصولوں کو پامال کیا بلکہ کھیل کو نفرت اور سیاست کی نذر کر دیا۔ یہ رویہ کسی بھی مہذب معاشرے یا ذمہ دار کھلاڑی کے شایانِ شان نہیں تھا۔بھارت بارہا دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ سب سے بڑی جمہوریت ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کے کرکٹر بھی سیاسی تنگ نظری سے آزاد نہیں۔ جمہوریت کا تقاضا برداشت اور رواداری ہے، لیکن بھارتی ٹیم کے اس فیصلے نے واضح کر دیا کہ وہاں کھیل کو بھی دشمنی اور تعصب کی عینک سے دیکھا جاتا ہے۔ یہ رویہ نہ صرف کھیل کے اصولوں کی توہین ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھارت کی جگ ہنسائی کا باعث بھی بنا ہے۔کھیل کبھی دشمنی نہیں سکھاتا، بلکہ حوصلہ، برداشت اور احترام کی تربیت دیتا ہے۔ کرکٹ کی تاریخ عظیم مثالوں سے بھری پڑی ہے جہاں سخت ترین مقابلے کے بعد کھلاڑیوں نے ایک دوسرے کو گلے لگا کر یہ پیغام دیا کہ کھیل مقابلے کا نام ہے، دشمنی کا نہیں۔ لیکن بھارتی ٹیم کا رویہ اس کے برعکس تھا۔ انتہا پسندانہ سوچ اور تنگ نظری کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔اصل سوال یہ ہے کہ بھارتی ٹیم جیت کر بھی اتنی چھوٹی کیوں نکلی؟ ایک ٹرافی لینا تو محض رسمی عمل تھا، لیکن اس انکار نے یہ ظاہر کر دیا کہ بھارت کھیل کو بھی اپنی سیاسی پالیسیوں کا غلام سمجھتا ہے۔ یہ حرکت کھیل سے زیادہ دشمنی کا اظہار تھی۔ ایسے رویے سے بھارت نے خود اپنے نوجوان کھلاڑیوں کو بھی یہ سبق دیا کہ مخالف ملک کے ساتھ احترام اور شائستگی کی کوئی گنجائش نہیں۔یہ محض ایک کھیل کا معاملہ نہیں۔ یہ اس سوچ کا عکاس ہے جو پورے خطے میں نفرت کو ہوا دیتی ہے۔ اگر دنیا کے سب سے مقبول کھیل کو بھی سیاست اور تعصب کے لیے استعمال کیا جائے گا تو پھر کھیل کو امن کا ذریعہ کیسے بنایا جا سکتا ہے؟ بھارتی رویہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہاں کھیل کو سفارت کاری کے بجائے دشمنی کا ہتھیار سمجھا جاتا ہے۔پاکستانی وزیر نے بطور مہمان اپنی ذمہ داری ادا کی، لیکن بھارتی ٹیم نے اس کا بھی لحاظ نہ رکھا۔ یہ صرف کھیل کے آداب کی خلاف ورزی نہیں تھی بلکہ سفارتی بدتمیزی بھی تھی۔ کھیل جیتنے کے بعد بڑے دل کا مظاہرہ کرنا ہی عظمت ہے، لیکن بھارت نے دنیا کو دکھا دیا کہ وہ چھوٹے پن سے باہر آنے کو تیار نہیں۔اس پس منظر میں حکومتِ پاکستان اور پاکستان کرکٹ بورڈ کو چاہیے کہ وہ اس رویے کے خلاف باضابطہ احتجاج ریکارڈ کرائیں اور ایشین کرکٹ کونسل و انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے سامنے معاملہ اٹھائیں۔ بھارت جیسے بڑے ملک کے کھلاڑیوں کو یہ باور کرانا ضروری ہے کہ کھیل کو سیاست کی بھینٹ چڑھانا ناقابل قبول ہے۔ اگر اس رویے کو نظر انداز کیا گیا تو کل کوئی اور ٹیم بھی کھیل کے بجائے دشمنی کے اشاروں پر چلنے لگے گی۔ پاکستان کو واضح پیغام دینا ہوگا کہ کھیل امن اور دوستی کا نام ہے، نفرت اور تنگ نظری کا نہیں۔
٭٭٭












