پاکستان کے
مرد مجاہد کی غزہ آمد!!!
پاکستان سمیت دنیا بھر میں غزہ متاثرین سے اظہار یکجہتی کا سلسلہ عروج پر ہے،متاثرین کے لیے امداد کی بحالی کے بلند و بانگ دعوے بھی سنائی دے رہے ہیں لیکن کوئی غزہ متاثرین سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے سمندر کے خوفناک راستے کو کراس کرتے ہوئے غزہ کے ساحل تک نہیں پہنچ پایا، یہ اعزاز بھی پاکستانی سیاسی پارٹی جماعت اسلامی کے حصے میں آیا ہے جس کے سابق سینیٹر مشتاق احمد نے نہ صرف میڈیا پر غزہ متاثرین کی حمایت میں بلند و بانگ دعوے کیے بلکہ صمود فلوٹیلا کا حصہ بن کر غزہ تک پہنچنے کی نئی مثال بھی قائم کر دی ہے ،مستاق احمد نے غزہ میں پاکستانیوں کی نمائندگی کی اور ان سے بھرپور اظہار یکجہتی کیا جہاں اسرائیلی فوج نے مشتاق احمد سمیت 173کے قریب دیگر غیرملکیوں کو غزہ سے حراست میں لیا ، ہتھکڑیاں لگا کر اپنے حراستی مراکز میں منتقل کیا ، ان پر کتے چھوڑے گئے جس کے احتجاج میں مشتاق احمد سمیت دیگر غیرملکیوں نے احتجاج کے طور پر بھوک ہڑتال کی ، اس کے ساتھ عالمی دبائو پر اسرائیل کو ان تمام قیدیوں کو رہا کرنا پڑا، مشتاق احمد اس وقت اُردن کے سفارتخانے میں موجود ہیں ، جہاں ان کے ساتھ دیگر غیرملکی بھی موجود ہیں ۔اپنے ‘ایکس’ اکاؤنٹ سے جاری کیے گئے ویڈیو پیغام میں مشتاق احمد نے اپنی آپ بیتی سنائی کہ کس طرح انہیں پانچ سے چھ دن اسرائیلی فورسز نے بدنام زمانہ جیل میں قید رکھا اور بدترین تشدد کا نشانہ بنایا ، ہاتھوں میں ہتھکڑیاں، پیروں میں بیڑیاں اور زنجیریں ڈالی گئیں جب کہ آنکھوں پر پٹیاں باندھی گئیں، تمام قیدیوں پر کتے چھوڑے گئے اور بندوقیں تانی گئیں، قیدیوں نے اپنے مطالبات کے لیے 3 دن تک بھوک ہڑتال جاری رکھی لیکن انہیں پینے کے لیے پانی، ہوا اور طبی سہولیات سے محروم رکھا گیا، یہاں تک کہ کسی بھی چیز تک رسائی نہیں دی گئی۔45 کشتیوں پر مشتمل ‘گلوبل صمود فلوٹیلا’ اسرائیل کی جانب سے غزہ پر عائد غیر قانونی ناکہ بندی کو توڑنے کے مقصد سے گزشتہ ماہ سپین سے روانہ ہوا تھا۔2 اکتوبر کو اسرائیلی بحریہ نے اس قافلے کو روکا، کمانڈوز نے کشتیوں پر چڑھائی کی اور تمام شرکا کو گرفتار کر لیا تھا جس میں سابق پاکستانی سینیٹر مشتاق احمد خان بھی موجود تھے۔دوسری طرف اسرائیل اور حماس کے درمیان مذاکرات مصر میں جاری ہیں جس کا پہلا روز مثبت رہا ہے،جس سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 20 نکاتی منصوبے کے تحت غزہ کی جنگ ختم کرنے کے ممکنہ معاہدے کی اُمید پیدا ہوئی ہے۔حماس کے وفد نے ثالثوں کو بتایا کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ پر جاری بمباری قیدیوں کی رہائی سے متعلق مذاکرات میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔حماس کے وفد میں خلیل الحیہ اور ظاہر جبارین شامل تھے، یہ دونوں وہ مذاکرات کار ہیں جو گزشتہ ماہ دوحہ کے وسط میں اسرائیلی قاتلانہ حملے میں بچ گئے تھے، جس میں 5 افراد مارے گئے تھے۔پہلے دن کے مذاکرات میں قیدیوں اور یرغمالیوں کے تبادلے، جنگ بندی اور غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی پر بات چیت ہوئی۔صدر ٹرمپ، اسرائیلی یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کے جلد تبادلے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں تاکہ ان کے امن منصوبے کے دیگر حصوں پر عمل درآمد کے لیے رفتار پیدا کی جا سکے۔ ٹیکنیکل ٹیمیں اس وقت اس بات پر کام کر رہی ہیں کہ یرغمالیوں کی رہائی کے لیے حالات مکمل طور پر سازگار ہوں،ٹیمیں اسرائیلی یرغمالیوں اور سیاسی قیدیوں کی فہرستوں کا جائزہ لے رہی ہیں۔ٹرمپ نے عربـترک مشترکہ حمایت کی تعریف کی، جس نے حماس کو مذاکرات کی میز پر برقرار رکھا، انہوں نے اسرائیلی عوام کی تعریف کی اور اپنے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف کی بھی تعریف کی، جو امریکی وفد کی قیادت کر رہے ہیں۔ ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر، جو ایک رئیل اسٹیٹ ڈیولپر ہیں، بھی امریکی وفد کا حصہ ہیں۔7اکتوبر اس دن کے 2 سال مکمل ہونے کا دن ہے، جب 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے میں ایک ہزار 139 اسرائیلی مارے گئے تھے اور تقریباً 200 افراد کو یرغمال بنالیا گیا تھا۔تب سے اب تک، اسرائیلی افواج نے غزہ میں کم از کم 67 ہزار 160 فلسطینیوں کو شہید اور ایک لاکھ 69 ہزار 679 کو زخمی کیا ہے۔اس جنگ کو اقوام متحدہ کی ایک تحقیقاتی کمیٹی، عالمی ماہرینِ نسل کشی اور متعدد انسانی حقوق تنظیموں بشمول اسرائیلی غیر سرکاری تنظیموں نے نسل کشی قرار دیا ہے۔مشتاق احمد کی رہائی پر پاکستانی قیادت نے بھی اتحاد کا مظاہرہ کیا ہے ، نائب وزیرا عظم اسحاق ڈار نے مشتاق احمد سمیت دیگر یرغمالیوں کی رہائی میں کردار ادا کرنے پرمختلف ممالک کے کردار پر ان کا شکریہ ادا کیا ہے۔
٭٭٭














